ملک میں ایک طرف غریب کیلئے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو رہا ہے تو دوسری طرف پنجاب اسمبلی کے ارکان نے اپنی ہی تنخواہوں میں اضافے کا بل منظور کرلیاہے۔ گورنر پنجاب سے بل کی منظوری پرایم پی ایز کی تنخواہ میں 526 فیصد کا ہوشربا اضافہ ہوجائے گا۔ پنجاب اسمبلی میں یہ بل کثرت رائے سے منظور ہوا اوراپوزیشن بینچوں سے بھی کوئی خاطر خواہ احتجاج یا شور شرابا نظر نہیں آیا۔ اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے محض یہ اعتراض کیا کہ یہ دیکھ لیا جائے بل آئینی اور قانونی ہو جس پر سپیکر نے جواب دیا بل آئینی اور قانونی ہے۔تنخواہوں میں اضافے کے بل کی منظوری کے بعد ارکان بے حد خوش نظرآئے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ گورنر پنجاب کے بل پر دستخط کے بعد ہر رکن اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار سے بڑھ کر 4 لاکھ ہو جائے گی۔ صوبائی وزرا ء کی تنخواہ 1 لاکھ سے بڑھا کر 9 لاکھ 60 ہزار کر دی جائے گی۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ 1 لاکھ 25 ہزار سے بڑھ کر 9 لاکھ 50 ہزار ،ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ 1 لاکھ 20 ہزار سے بڑھ کر 7 لاکھ 75 ہزار ہوجائے گی۔ پارلیمانی سیکرٹریز کی تنخواہ 83 ہزار سے بڑھ کر 4 لاکھ 51 ہزار ہوگئی۔ سپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ 1 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار اور ایڈوائزر کی تنخواہ 1 لاکھ سے بڑھ کر 6 لاکھ 65 ہزار ہوجائے گی۔ تمام مہذب دنیا میں سیاست کو عبادت اور خدمتِ خلق کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور حقیقت میں ایسا ہی ہے لیکن ہمارے ہاں اس معیار پر کون پورا اترتا ہے یہ ہر کوئی جانتا ہے۔ ہماری سیاست میں اکثر پارلیمنٹرینز بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے نظر آئیں گے لیکن ان معززین ارکان کے رویے سے واضح ہوتا ہے کہ قائداعظم کو آئیڈیل محض عوام کو دکھاوے کیلئے ہی قرار دیتے ہیںکیونکہ اگر واقعی کوئی قائد کو اپنا آئیڈیل قرار دیتا ہے تواسے خود کو قائد کا سچا اور حقیقی پیروکار بھی ثابت کرنا چاہئے۔ قائداعظم نے تو اپنی جائیداد میں سے ایک معمولی سا حصہ اپنے عزیزوں کیلئے رکھ کر باقی ساری جائیداد اور دولت نوزائیدہ مملکت کے نام کر دی تھی۔ آج قائدکو آئیڈیل قرار دینے والوں کا کردار وعمل ایسا نظر آتا ہے؟۔یہ فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کی مثال ہمارے حکمرانوں‘ اراکین پارلیمنٹ اور سیاست دانوں کیلئے رہنمائی کا روشن مینارہ ہے۔ امیرالمومنین منتخب ہونے کے اگلے روز آپؓ نے قصد کیا کہ آپؓ اپنی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کریں تاکہ معاشی معاملات کو انجام دیا جاسکے۔ راستے میں حضرت عمرفاروقؓ سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپؓ سے عرض کیا ’’ یا امیرالمومنین ! آپؓ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟‘‘آپؓ نے فرمایا ’’تجارت کی غرض سے بازار کی طرف جارہا تھا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا’’اب آپؓ امیر المومنین ہیں، تجارت اور مسلمانوں کے باہمی معاملات ایک ساتھ کیسے چلیں گے ؟ آپؓ نے فرمایا ’’ بات تو آپؓ کی درست ہے مگر اہل وعیال کی ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی؟‘‘ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’ آئیے حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس چلتے ہیں اور ان سے مشورہ کرتے ہیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کا امین مقرر کیا تھا اسی لئے بیت المال کی نگرانی بھی آپؓ ہی کے ذمہ تھی۔ حضرات شیخین ، امین الامت کے پاس پہنچے اور صورتحال ان کے سامنے رکھ دی۔ امین الامت نے فرمایا ’’اب ابوبکرصدیقؓ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں،مسلمانوں کے مسائل اور معاملات کے ذمہ دار ہیں۔خلافت کے معاملات کو نبٹانے کیلئے طویل وقت اور سخت محنت درکار ہوتی ہے،اگر خلیفہ تجارت کریں گے تورعایا کا حق ادا نہ کرسکیں گے لہٰذا ان کی اور ان کے اہل وعیال کی ضرورت کیلئے بیت المال سے وظیفہ مقرر کردینا چاہیے‘‘ اب سوال یہ تھا کہ وظیفہ کی مقدار کتنی ہو ؟ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جتنا مدینے کے کسی ایک مزدور کی آمدنی ہوتی ہے اتنا کافی رہے گا۔ عرض ہوا کہ اتنے کم سے تو آپؓ کا گزارہ نہیں ہوسکے گا ۔آپؓ نے فرمایااگر اس سے ایک عام آدمی کے گھر کا گزارہ ہوسکتا ہے تو خلیفہ کا بھی ہونا چاہیے۔ اگر نہیں ہوسکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ایک عام مزدور کس طرح گزارہ کرتا ہوگا۔ چنانچہ خلافت اسلامی کے اس پہلے تاجدار کا وظیفہ ایک عام مزدور کے مساوی مقرر ہوا۔ بعد ازاں آپؓ نے اس قلیل رقم میں مزید کمی کروادی۔ واقعہ یوں ہے کہ آپؓ کو میٹھا مرغوب تھا، اب روز جو مقدار بیت المال سے عطا ہوتی اس میں ہی گزارہ کرنا دشوار تھا چاجائیکہ میٹھا کہاں سے آتا ؟ آپؓ کی زوجہ محترمہ نے یہ کیا کہ روز جو آٹا بیت المال سے آتا تھا اس میں سے معمولی سا جمع کرنا شروع کردیاجب اس کی مقدار زیادہ ہوگئی تو ایک روز میٹھا تیار کرکے دسترخوان پر رکھا گیا۔ آپؓ نے فرمایا یہ کہاں سے آیا۔زوجہ محترمہ نے عرض کیا گھر میں بنایا ہے۔ آپؓ نے فرمایا جو مقدار ہم کو روزانہ ملتی ہے اس میں تو اس کی تیاری ممکن نہیں؟زوجہ محترمہ نے سارا ماجرہ عرض کیا۔ آپؓ نے یہ سن کر فرمایا اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم کو اتنی مقدار ( جو روز کفایت کی گئی) ہم کو روزانہ زیادہ ملتی ہے اس سے کم میں بھی گزارہ ہوسکتا ہے لہٰذا اس کو بیت المال میں داخل کرا دیا جائے اور آئندہ سے روزانہ ملنے والے وظیفے سے یہ مقدار کم کردی ۔آپؓ کے وصال کا وقت قریب آیا تواس خرچے کا حساب لگایا گیا جو آپؓ نے بیت المال سے لیا تھا اورجتنا خرچ لیا تھا اس سے زیادہ مال بیت المال میں جمع کرا دیا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ارکان پارلیمنٹ کو بھی عام پاکستانی کی طرح گھربار چلانا ہوتا ہے‘ ان کو بھی مراعات کی ضرورت ہے جو ریاست نے مقرر کرنا ہیں۔ ان اراکین پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے لیکن آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ ارکان کی اکثریت کا قانون سازی کے دوران کردار صفر رہا۔ یہ ایوان میں ایک لفظ تک نہیں بولتے۔ پارٹی لیڈر نے کہا تو ہاںمیں ہاتھ اٹھا دیا۔ قانون سازی کیلئے چند لوگ ہی فعال کردار ادا کرتے ہیں۔قوم کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے ارکان کے اخراجات قومی خزانے سے پورے ہونے چاہئیں بشرطیکہ ان کو واقعی ضرورت ہو۔ یہ اراکین قوم وملک کیلئے اخلاص ثابت کرتے ہوئے منتخب ہونے کے بعد اپنا کاروبار وہیں پہ چھوڑ دیں‘ کرپشن نہ کریں‘ ترقیاتی فنڈز اسی مد میں لگائیں جس کیلئے جاری ہوا‘ دیانت کا عملی نمونہ پیش کریں تو اخراجات کیلئے جتنی تنخواہوں و مراعات کی ضرورت ہو گی تو قوم بڑی خوشی سے ان کی نذر کرے گی لیکن اگر اس کے برعکس ہو تو ایک غریب آدمی کو اعتراض کا حق بھی شریعت نے دیا ہے۔ اس سے یہ حق تو نہ چھینیں۔
تبصرے بند ہیں.