پروفیسر رضا اللہ حیدر میرے استادِ گرامی ہیں۔ خوبصورتی سے ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ جدید کلاسیکل لہجے کے خوبصورت غزل گو اور پُر شکوہ نعت گو شاعر ہیں۔ چار شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ نثر میںغالب اور معاصر علما کے عنوان سے مقالہ بھی داغ رکھا ہے۔ معتدل مزاج کے مذہبی سکالر ہیں۔ کہیں بھی اختلاف کی صورت پیدا نہیں ہونے دیتے۔ (ہماری بھابھی کی خواہش ہی رہی ہے کہ آپ ان سے کبھی اختلافِ رائے کی صورت پیدا کریں مگر ندارد)۔ راقم الحروف نے بھی ان پر رضا اللہ بحیثیت شاعر کے عنوان سے ایم فل کا مقالہ لکھ رکھا ہے۔ قارئین انہی کی زبانی ایک ایمان افروز واقعہ سنئے۔ یہ قریباً 1957 کی بات ہے، کہ فرانس میں کہیں ایک رہائشی عمارت کی نکڑ میں ترکی کے ایک پچاس سالہ بوڑھے آدمی نے چھوٹی سی دکان بنا رکھی تھی۔ اردگرد کے لوگ اس بوڑھے کو انکل ابراہیم کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔ انکل ابراہیم کی دکان میں چھوٹی موٹی گھریلو ضروریات کی اشیا کے علاوہ بچوں کیلئے چاکلیٹ، آئسکریم اور گولیاں، ٹافیاں دستیاب تھیں۔ اسی عمارت کی ایک منزل پر ایک یہودی خاندان آباد تھا جن کا ایک سات سالہ بچہ (جاد) تھا۔ جاد قریباً روزانہ ہی انکل ابراہیم کی دکان پر گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات خریدنے کیلئے آتا تھا۔ دکان سے جاتے ہوئے انکل ابراہیم کو کسی اور کام میں مشغول پا کر جاد نے کبھی ایک چاکلیٹ چوری کرنا نہ بھولی تھی، ایک بار جاد دکان سے جاتے ہوئے چاکلیٹ چوری کرنا بھول گیا۔ انکل ابراہیم نے جاد کو پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا: جاد!… آج چاکلیٹ نہیں اٹھاؤ گے کیا…؟ انکل ابراہیم نے یہ بات محبت میں کی تھی یا دوستی سے مگر جاد کیلئے ایک صدمے سے بڑھ کر تھی۔ جاد آج تک یہی سمجھتا تھا کہ اس کی چوری ایک راز تھی مگر معاملہ اس کے برعکس تھا۔ جاد نے گڑگڑاتے ہوئے انکل ابراہیم سے کہا کہ آپ اگر مجھے معاف کر دیں، تو آئندہ کبھی چوری نہیں کروں گا، مگر انکل ابراہیم نے جاد سے کہا: اگر تم وعدہ کرو کہ اپنی زندگی میں کبھی کسی کی چوری نہیں کرو گے تو روزانہ کا ایک چاکلیٹ میری طرف سے تمہارا ہوا، ہر بار دکان سے جاتے ہوئے لے جایا کرنا۔ اور بالآخر اسی بات پر جاد اور انکل کا اتفاق ہو گیا…! وقت گزرتا گیا اور اس یہودی بچے جاد اور انکل ابراہیم کی محبت گہری سے گہری ہوتی چلی گئی۔ بلکہ ایسا ہو گیا کہ انکل ابراہیم ہی جاد کیلئے باپ، ماں اور دوست کا درجہ اختیار کر چکا تھا۔ جاد کو جب کبھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا یا پریشانی ہوتی تو انکل ابراہیم سے ہی کہتا، ایسے میں انکل میز کی دراز سے ایک کتاب نکالتے اور جاد سے کہتے کہ کتاب کو کہیں سے بھی کھول کر دو۔ جاد کتاب کھولتا اور انکل وہیں سے دو صفحے پڑھتے، جاد کو مسئلے کا حل بتاتے، جاد کا دل اطمینان پاتا اور وہ گھر کو چلا جاتا…! اور اسی طرح ایک کے بعد ایک کرتے سترہ سال گزر گئے۔ سترہ سال کے بعد جب جاد چوبیس سال کا ایک نوجون بنا تو انکل ابرہیم بھی اس حساب سے سڑسٹھ سال کے ہو چکے تھے۔ داعی اجل کا بلاوا آیا اور انکل ابراہیم وفات پا گئے…! انہوں نے اپنے بیٹوں کے پاس جاد کیلئے ایک صندوقچی چھوڑی تھی، ان کی وصیت تھی کہ اس کے مرنے کے بعد یہ صندوقچی اس یہودی نوجوان جاد کو تحفہ میں دیدی جائے…! جاد کو جب انکل کے بیٹوں نے صندوقچی دی اور اپنے والد کے مرنے کا بتایا تو جاد بہت غمگین ہوا، کیونکہ انکل ہی تو اسکے غمگسار اور مونس تھے۔ جاد نے صندوقچی کھول کر دیکھی تو اندر وہی کتاب تھی جسے کھول کر وہ انکل کو دیا کرتا تھا…! جاد، انکل کی نشانی گھر میں رکھ کر دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ مگر ایک دن اسے کسی پریشانی نے آ گھیرا، آج انکل ہوتے تو وہ اس کتاب کھول کر دو صفحے پڑھتے اور مسئلے کا حل سامنے آ جاتا۔ جاد کے ذہن میں انکل کا خیال آیا اور اس کے آنسو نکل آئے…! کیوں ناں آج میں خود کوشش کروں…! کتاب کھولتے ہوئے وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا، لیکن کتاب کی زبان اور لکھائی اس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ کتاب اٹھا کر اپنے تیونسی عرب دوست کے پاس گیا اور اسے کہا کہ مجھے اس میں سے دو صفحے پڑھ کر سناؤ، مطلب پوچھا اور اپنے مسئلے کا اپنے تئیں حل نکالا۔ واپس جانے سے پہلے اس نے اپنے دوست سے پوچھا: یہ کیسی کتاب ہے…؟ تیونسی نے کہا: یہ ہم مسلمانوں کی کتاب قرآن ہے…! جاد نے پوچھا: مسلمان کیسے بنتے ہیں…؟ تیونسی نے کہا: کلمہ شہادت پڑھتے ہیں اور پھر شریعت پر عمل کرتے ہیں…! جاد نے کہا: تو پھر سن لو یہ کہہ کر جاد نے کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہو گیا اور اپنے لیے جاد اللہ القرآنی کا نام پسند کیا۔ نام کا اختیار اس کی قرآن سے والہانہ محبت کا کھلا ثبوت تھا۔ جاد اللہ نے قرآن کی تعلیم حاصل کی، دین کو سمجھا اور اس کی تبلیغ شروع کی…! یورپ میں اسکے ہاتھ پر چھ ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسلام قبل کیا۔ ایک دن پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے جاد اللہ کو انکل ابراہیم کے دیئے ہوئے قرآن میں دنیا کا ایک نقشہ نظر آیا جس میں براعظم افریقہ کے اردگرد لکیر کھینچی ہوئی تھی اور انکل نے دستخط کیے ہوئے تھے۔ ساتھ میں انکل کے ہاتھ سے ہی یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی: ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ…!‘‘ جاد اللہ کو ایسا لگا جیسے یہ انکل کی اس کیلئے وصیت ہو۔ اور اسی وقت جاد اللہ نے اس وصیت پر عمل کرنے کی ٹھانی، اور ساتھ ہی جاد اللہ نے یورپ کو خیرباد کہہ کر کینیا، سوڈان، یوگنڈہ اور اس کے آس پاس کے ممالک کو اپنا مسکن بنایا، دعوت حق کیلئے ہر مشکل اور پُرخطر راستے پر چلنے سے نہ ہچکچایا اور اللہ تعالیٰ نے اسکے ہاتھوں ساٹھ لاکھ انسانوں کو دین اسلام کی روشنی سے نوازا…! جاد اللہ نے افریقہ کے کٹھن ماحول میں اپنی زندگی کے تیس سال گزار دیئے۔ 2003 میں افریقہ میں پائی جانے والی بیماریوں میں گھر کر محض چون سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کو جا ملے…! جاد اللہ کی محنت کے ثمرات انکی وفات کے بعد بھی جاری رہے۔ وفات کے ٹھیک دو سال بعد انکی ماں نے ستر سال کی عمر میں اسلام قبول کیا…!
جاد اللہ اکثر یاد کیا کرتے تھے کہ انکل ابراہیم نے اسکے سترہ سال میں کبھی اسے غیر مسلم محسوس نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی کہا کہ اسلام قبول کر لو۔ مگر اس کا رویہ ایسا تھا کہ جاد کا اسلام قبول کیے بغیر چارہ نہ تھا۔ آپ کے سامنے اس واقعہ کے بیان کرنے کا فقط اتنا مقصد ہے کہ کیا مجھ سمیت ہم میں سے کسی مسلمان کا اخلاق و عادات و اطوار و کردار انکل ابراہیم جیسا ہے کہ کوئی غیر مسلم جاد ہم سے متاثر ہو کر جاد اللہ القرآنی بن کر میرے مذہب اسلام کی اس عمدہ طریقے سے خدمت کر سکے۔۔۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.