ملٹری کورٹس کے دائرہ کار پر بروقت فیصلہ

50

جو جیسا کرے گا بھگتے گا، اگر کوئی وطن عزیز کیخلاف گھنائونی سازش کرے گا تو یقینا قانون حرکت میں آئے گا اور اگر کوئی سالمیت کو براہ راست خطرات سے دوچار کرے گا تو ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کا حق ہے ۔ تو جناب ملک میں انتشار، بدامنی پھیلانے اور اس کی سہولت کاری کرنے والوں کیلئے بری خبر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں کو سویلینز کے ٹرائلز میں سزا سنانے کی اجازت دیدی ہے۔ یہ معاملہ ایک طویل عرصے سے التوا کا شکار تھا جس کی وجہ سے ملک دشمن عناصر عدالتی سٹے کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے بلاخوف وخطر ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔ اس ضمن میں پاک فوج نے بھی انتہائی تحمل سے لمبی عدالتی عمل داری کو برداشت کیا لیکن 9 مئی پر اپنے دو ٹوک موقف سے پیچھے نہیں ہٹے اگر اس فیصلے کا بغور جائزہ لیاجائے تو یہ آئینی بینچ کا احسن اقدام دکھائی دیتا ہے اورایک امید کی کرن بن کر سامنے آیا ہے۔ گو کہ اس فیصلے کو بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا تاکہ نو مئی 2023 کے بعد سے لیکر اب تک جو بھی انتشار اور بدامنی کے واقعات ہوئے، جو ریاست پر حملے کئے گئے اور پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اس کا راستہ روکا جاسکتا مگر اس کے باوجود دیرآید درست آید کے مترادف یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔ آئینی بینچ کے اس فیصلے سے ملک میں برسرپیکار دہشت گردوں، سیاست کا لبادہ اوڑھ کر خلفشار اور انتشار پھیلانے والے عناصر اور ہر دوسرے روز لشکر کے ساتھ وفاقی دارالحکومت پر حملہ آور ہونے والے شرپسندوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی جو اب تک یہ سب کچھ اس بل بوتے پر کر رہے تھے کہ عدالتی سٹے کی وجہ سے 9 مئی کے ذمہ داران، اکسانے والوں اور سہولت کاروں کو سزائیں نہیں مل رہی تھیں اور ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ ہمیں کس نے پکڑنا کس نے سزا دینی ہے۔۔؟ اب امید ہے کہ ملٹری کورٹس میں جن جن شرپسندوں کیخلاف کیس زیر التوا ہیں ان کے فیصلے بروقت آنا شروع ہونگے جس سے سزا و جزا کا عمل پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا اور جب ان شرپسندوں، دہشتگردوں کو سزا مل جائے گی تو آئندہ نو مئی اور 24 تا 26 نومبر جیسے واقعات کا راستہ روکا جا سکے گا۔ اس فیصلے سے نو مئی کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کے گرد گھیرا بھی تنگ ہوگا اور انہیں بھی قانون کے کٹہرے میں لانے میں مدد ملے گی کیونکہ اصل انصاف تب ہوگا جب ان منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو کڑا حساب دینا پڑے گا ۔ فیصلے سے سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا حق بھی تسلیم ہوگیا ہے اور وہ ساری آوازیں خاموش کرا دی گئی ہیں جو یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ اب تحریک انصاف کی لیڈرشپ جس نے نومئی میں کلیدی کردار ادا کیا اور نومئی کرایا، کو بھی اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ یہ فیصلہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ کسی بھی پر تشدد سیاسی سوچ کی پروان کے لئے عوام کو اپنے فیملی ممبرز کو ایندھن بننے سے روکنا ہوگا ورنہ نقصان صرف انکا اپنا ہوگا یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ آرمی 9 مئی میں شامل ہر شخص کو قانون کے مطابق سزا دلوانے میں کسی جلدی میں نہیں اور نومئی سانحہ کے ماسٹر مائنڈ، ہر شر پسند، منصوبہ ساز اور سہولت کار کو منطقی انجام تک لے کر جائے گی ۔ تحریک انصاف کے بانی اور ان کے حواری یہ بھانپ چکے ہیں کہ وہ سنگین غفلت کر بیٹھے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں ڈھٹائی کی بھی انتہا ہوتی ہے ۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی پہلے بھی مذاکرات کی بات کرچکے تھے اور اب بھی مذاکرات چاہتے ہیں ۔ یعنی پہلے چوبیس نومبر کے احتجاج کی فائنل کال کا ڈرامہ رچا کر ناکامی کے بعد اب بات چیت کی میز پر آگئے ۔ یہی نہیں بیرسٹرگوہر نے واضح کیا کہ ان مذاکرات کی کوئی شرط بھی نہیں ۔ غور طلب امر یہ ہے یہ سب جنرل فیض کو چارج شیٹ کرنے کے بعد ہوا ہے ۔ جیسے ہی آئی ایس پی آر نے بیان جاری کیا کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید چارج شیٹ ہو رہے ہیں اس کے اگلے ہی روز مذاکرات کی باتیں تیز ہو گئیں ۔ سب جانتے ہیں کہ فیض کے رابطوں اور چارج شیٹ ہونے کا مطلب کیا ہے۔ عمران خان اور ان کے حواریوں سے رابطے ثابت ہو رہے ہیں ، ایسے میں گیم آن ہے اور اب معاملات بہتر انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کا فیصلہ تاریخی ہے اور اب فوجی عدالتیں انصاف کریں گے اور یہ انصاف ہوتا نظر آئے گا۔

تبصرے بند ہیں.