رنگ باز: سول نافرمانی اور چیمپئن گدھا

62

مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب تحریک انصاف لاہور کے جنرل سیکرٹری کے طور پر کام کر رہا تھا تو ایک بار 14 ظفر علی روڈ پر پارٹی آفس میں ورکروں کی میٹنگ تھی۔ اب ورکروں کی میٹنگ کا یہ معاملہ ہوا کرتا تھا کہ ہم مہینہ دو مہینے محنت کر کے لوگوں کو لاہور کے گلی کوچوں سے اکھٹے کر کے عمران نیازی کی قیاد ت میں ایک بہتر پاکستان کا نقشہ دکھاتے اور پھر انہیں عمران نیازی سے ملوانے کیلئے میٹنگ کا بندوبست کرتے تو خدا جانتا ہے کہ ہماری دن رات کی محنت ہماری ہڈیوں میں بول رہی ہوتی تھی۔ بہرحال ہوا یوں کہ میں نے بطور سٹیج سیکرٹری عمران نیازی کو اُس کے تمام القابات کے ساتھ سٹیج پر بلایا تو ایک نیا لطیفہ ہو گیا کہ چیئرمین تحریک انصاف نے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد کہا کہ ’’لاہوریے بڑے رنگ باز ہوتے ہیں۔ جب میں ایچیسن کالج کی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا تو لاہور کے لڑکوں نے کہنا: ’’کپتان متھے رنگ دیاں گے‘‘ یعنی بال مار کر سر پھاڑ دیں گے، یا پھر کہنا ’’کپتان! ٹالیاں ٹپا دیاں گے‘‘ یعنی لمبے لمبے چھکے ماریں گے، اور پھر کسی نے نہ تو متھے رنگنے اور نہ ہی ٹالیاں ٹپانیں اور ہم میچ ہار جاتے تھے، تم میرے ساتھ ایسا نہ کرنا کیوں کہ تم نواز شریف کو بھی کہتے تھے کہ نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جب نواز شریف نے قدم بڑھایا تو کوئی بھی پیچھے نظر نہیں آیا۔‘‘ اِن الفاظ کے بعد بانی چیئرمین ستائشی نظروں سے لاہوریوں کی طرف دیکھ رہا تھا اور تین چار سو ورکرز اور لاہور کی تمام قیادت شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب ان لوگوں کو کیسے دوبارہ اپنے کسی پروگرام میںگھیر کر لائیں گے کیونکہ سب کے چہروں سے ناراضی واضح نظر آ رہی تھی۔ عمران نیازی نے اپنی تقریر ختم کی تو اب پروگرام کے باقاعدہ ختم ہونے کا اعلان میں نے بطور سٹیج سیکرٹری کرنا تھا سو سوچا کہ جن ورکروں کو ہم نے اتنی محنت سے تیار کیا ہے اور یہاں تک لائے ہیں انہیں تو راضی کریں۔ میں نے پروگرام کے اختتام کا اعلان کرنے سے پہلے چیئرمین تحریک انصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’جناب چیئرمین! آپ کا مشاہدہ درست ہو گا لیکن کسی ایک فرد یا چند افراد، یا کسی ایک گروہ کے رویے سے کسی قوم یا شہر کا مجموعی رویہ سامنے نہیں آتا ورنہ ایک نیازی کے ہتھیار پھینکنے کے بعد ہمیں بھی دوسرے نیازی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا اور جہاں تک لاہور کی بات ہے تو یہ لاہور ہی تھا جس نے قرار داد پاکستان منظور کی، یہ لاہور ہی تھا جہاں خاکساروں پر گولی چلی، یہ لاہور ہی تھا جس نے ایوب اور بھٹو کے خلاف کامیاب تحریکیں چلائیں۔ سو میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ آپ ایسا کوئی حوالہ ورکروں کے درمیان دینے سے پہلے لاہور ایگزیکٹو میں ڈسکس کر لیا کریں۔‘‘ پروگرام تو ختم ہو گیا لیکن عمران نیازی کی نظر میں، میں معتوب قرار دے دیا گیا اور پھر کئی سال تک ہم ایک دوسرے سے اختلاف بھی کرتے رہے اور ساتھ بھی چلتے رہے کہ یہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے کہ مختلف الخیال لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے لیکن تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد مجھے جس عمران نیازی کا سامنا کرنا پڑا وہ انتہائی بے رحم اور محسن کش انسان تھا۔ مجھے یقین ہی نہیں ہوتا تھا یہ وہ شخص ہے جو ہر مشکل سٹیج پر مجھے بلا کر کھڑ ا کر دیتا تھا لیکن اسی کا نام زندگی ہے ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں لیکن شاید کچھ لوگوں کو پے در پے غلطیاں کرنے کی عادت ہوتی ہے۔

ایک معروف اخبار کے مطابق کراچی میں ہونے والی چیمپئنز گدھا گاڑی ریس سرتاج نامی گدھے نے جیت لی۔ ریس کا فاتح لیاقت آباد کے عارف کا گدھا سرتاج رہا جبکہ دوسری پوزیشن چٹا استاد اور تیسری پوزیشن ندیم نے حاصل کی۔ ریس کے فاتح کو ایک لاکھ روپے اور ٹرافی انعام دیا گیا۔ رنر اپ کو 50 ہزار اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے کو 30 ہزار روپے دئیے گئے۔ اس کے علاوہ ریس میں حصہ لینے والے ہر ریسر گدھے کو تین تین ہزار روپے دئیے گئے۔ خبردلچسپ ہے لیکن اِس میں خبریت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بندہ پرور جب گدھوں کی ریس ہو گی تو پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر گدھا ہی آئے گا اس میں خوش ہونے والی کون سی بات ہے۔ البتہ جس کا گدھا ہے اُس کیلئے یقینا یہ عزت اور خوشی کا موقع ہے کہ اُسے گدھے کی محنت اور جواں مردی کے نتیجہ میں ملنے والے عزت کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے۔ پس یہ تو طے ہوا کہ گدھو ں کو اگر عزت بھی دیدی جائے تو اُس کا حقدار اُس کا مالک ہی ٹھہرتا ہے نا کہ گدھا۔
محکمہ تعلیم پنجاب کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے تمام سرکاری اور نجی سکولوں کے طالب علم اب کسی بھی رنگ کی جیکٹ، سوئٹر، کوٹ، جرابیں اور جوتے پہن سکتے ہیں۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ یونیفارم پالیسی میں نرمی طالب علموں کو سردی سے بچانے کیلئے کی گئی ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح پنجاب بھی شدید سردی کی لپیٹ میں ہے۔ اس موقع پر ایسا اعلان پنجاب کے غریب ماں باپ کیلئے کسی رحمت سے کم نہیں لیکن کیا پاکستان یا پنجاب میں سردیاں پہلی بار آ رہی ہیں یا یہ ہر سال اپنے وقت پر بغیر جھوٹ بولے یا وعدہ خلافی کیے پہنچ جاتی ہیں اور ہمیں ہر سال کوئی نہ کوئی نیا ڈرامہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایٹمی پاکستان ہے جس کے بچوں کے پاس کتابیں، کاپیاں اور تعلیم حاصل کرنے کا دوسرا سامان تو دور کی بات وہ یونیفارم بھی نہیں ہے جو کم از کم سکول کے اندر طبقاتی تقسیم ختم کر کے بچوں کو ایک جیسا ذہنی ماحول فراہم کرتا ہے لیکن چھٹی کے وقت سکول کے باہر کھڑی گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، رکشے اور سائیکلیں بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر ایک ذلت آمیز احساس ضرور دلا دیتے ہیں کہ اُن کے ماں باپ دوسرے امیر بچوں کے ماں باپ سے مختلف ہیں۔

عمران نیازی اب سول نافرمانی کرنا چاہتا ہے اور میرا خیال ہے اُسے یہ شوق بھی پورا کر لینا چاہیے کیونکہ اِس کا اطلاق وہ خیبر پختونخوا میں تو کرنے سے رہا۔ سو باقی بچے پنجاب، سندھ اور بلوچستان تو یہاں یہ امید رکھنا کہ کوئی ایسی جسارت کرے گا اُس کا امکان دور دور تک نہیں۔ سول نافرمانی اُس وقت کامیاب ہوتی ہے جب قومیں ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کے نقطہ عروج پر پہنچ جاتی ہیں اور ایک مضبوط تنظیم اور طاقتور بیانیہ جو قوم کو سمجھ آ چکا ہو اور پوری طاقت کے ساتھ ریاست کے مخالف کھڑا ہو۔ بیانیے کی بات کی جائے تو سوائے عمران نیازی کی رہائی کے اُن کے پاس کوئی دوسرا بیانیہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ اب اِن حالات میں سول نافرمانی ہونا تو دور کی بات ایسا سوچنا بھی پاگل پن کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ البتہ عمران نیازی اور اُس کے ظاہر اور پوشیدہ ورکروں پر مزید مقدمات بنتے چلے جائیں گے اور اس قانونی دلدل میں اترتے اترتے ایک وقت میں خود اُن کا اپنا سانس بند ہونا شروع ہو جائے گا۔ بہرحال یہ گدھوں کی ریس ہے سو پہلے، دوسرے اور تیسر ے نمبر پر گدھا ہی آئے گا۔

تبصرے بند ہیں.