اے بہاولپور تو ہمیشہ آباد رہے

15

میں بہاولپور پر لکھے جانے والے اپنے گزشتہ کالم میں بہاولپور کے آر ڈی ففٹی ریسٹ ہاوس کا زکر کر رہا تھا، اس خوبصورت مقام میں قیام کے دوران یوں محسوس ہو رہا تھا یہ ہمارے نادرن ایریا کا کوئی خوبصورت مقام ہے، اس ریسٹ ہاوس کو جانے والا راستہ بھی بہت خوبصورت ہے، بڑے بڑے درختوں نے الگ ایک ماحول بنا رکھا ہے، کچھ درخت ان میں کھجوروں کے بھی ہیں، سڑک بھی اتنی ٹوٹی پھوٹی نہیں جیسی ہمارے پاکستان کی اکثر سڑکیں ہوتی ہیں، پاکستان میں کوئی سڑک یا کوئی راستہ بہت خوبصورت ہو سمجھ لیجئے وہ کسی اہم حکمرانی یا فوجی مقام کی جانب جاتا ہے، اور کوئی سڑک یا کوئی راستہ مکمل طور پر ٹوٹا پھوٹا ہو سمجھ لیجئے یہ کبھی کسی حکمران کی گزرگاہ نہیں رہا نہ رہے گا، آر ڈی ففٹی ریسٹ ہاو¿س میں کچھ بیڈ رومز بھی ہیں، انہیں بہت صاف ستھرا رکھا گیا ہے، مجھے یہاں کوئی ایسی بو نہیں آئی جس سے احساس ہو ان بیڈ رومز کا غلط استعمال کیا جاتا ہے جیسے ہمارے بہت سے سرکاری ریسٹ ہاو¿سز کا کیا جاتا ہے، ایک بیڈ روم میں قیام کے دوران اس کے باوجود کہ میں اکیلا تھا میں بار بار اس کی دیواروں، دروازوں اور چھتوں کو غور سے دیکھتا رہا کہیں کوئی کیمرہ تو فٹ نہیں کیا گیا ؟ پھر میں نے سوچا میں کون سا کوئی جج یا ریاست مخالف کوئی سیاستدان ہوں جس کے لئے یہ ہمارے ہاں یہ اہتمام کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے، سردیوں میں عام طور پر درختوں سے پتے جھڑنا شروع ہو جاتے ہیں یا ان کے رنگ بدلنے شروع ہو جاتے ہیں، آر ڈی ففٹی ریسٹ ہاو¿س کے بڑے بڑے درختوں سے پتے ابھی جھڑنا شروع نہیں ہوئے تھے نہ ہی ان پتوں کے رنگ بدلے تھے، گھاس بھی ایسی ہری بھری تھی جیسے ہمارے مئی جون کے مہینوں میں ہوتی ہے، مجھے لگا کچھ قدرت اس مقام پر مہربان ہے کچھ اس کے مالی بھی یقینا بہت محنتی ہوں گے جنہوں نے اس ریسٹ ہاو¿س کے قدرتی ح±سن کو بہت قدر سے سنبھالا ہوا ہے، اس ریسٹ ہاو¿س میں واقع خوبصورت جھیل کا منظر میں اپنے گزشتہ کالم میں آپ کو بتا چکا ہوں، یہ ایک مصنوعی جھیل ہے مگر اس کے ارد گرد کے ماحول کو اصلی جھیل سے بھی خوبصورت بنایا گیا ہے، اس میں تیرتی نہاتی ڈبکیاں لگاتی اور اونچی اونچی آوازوں سے اپنی جانب توجہ دلاتی رنگ برنگی بطخوں نے الگ ایک دلکش ماحول بنا رکھا تھا، ا±ن کی موجودگی سے جھیل اور بھی خوبصورت دکھائی دے رہی تھی، ہم نے اس جھیل میں کشتی بھی چلائی، دوستوں کی فرمائش پر ماحول کے مطابق میں نے انہیں ایک گانا بھی سنایا جس کے بعد تمام دوستوں کو پیناڈول لینا پڑی، اس ریسٹ ہاوس کے نگران سے میں نے کہا ”اگر آپ کچھ مور اور ہرن لا کر اس ریسٹ ہاوس میں چھوڑ دیں اس کی خوبصورتی میں مزید کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے“، اس نے میری اس بات سے اتفاق کیا مگر ساتھ ہی ساتھ یہ فرمایا”یہ ریسٹ ہاوس جن کے قبضے میں ہے ا±نہیں کوئی مشورہ نہیں دیا جاسکتا، وہ خود کو”عقل کل“ سمجھتے ہیں، ایک بار میں نے ا±ن سے کہا تھا ”سر یہاں کچھ ہرن لا کر چھوڑ دیں ؟ انہوں نے کہا وہ صبح صبح بانگیں دیں گے تو یہاں قیام کرنے والے ڈسٹرب ہوں گے، میں نے بڑے ادب سے ان سے کہا ”سر بانگیں مرغے دیتے ہیں، ہرن نہیں دیتے، انہوں نے آگے سے مجھے گالیاں دینا شروع کر دیں اور کہا”ملک تم چلا رہے ہو یاہم ؟ تمہیں ہم سے زیادہ پتہ ہے کہ ہرن بانگیں دیتے ہیں یا مرغے ؟“، آر ڈی ففٹی ریسٹ ہاوس کے بالکل قریب عالمی سطح پر مشہور ایک لال سوہانڑا پارک بھی ہے، یہاں سینکڑوں ہرن، مور اور بیشمار دوسرے پرندے ہیں، یہ پارک بھی قدرت نے بہاولپور کو ایک عظیم تحفے کی صورت میں عطا فرما رکھا ہے، یہ ہرن جب آپس میں لڑتے ہیں ان کے سینگوں کے ٹکرانے کی آوازیں سن کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گھنٹیاں بج رہی ہوں، ان کی لڑائی بس چند سیکنڈ کی ہوتی ہے، ریاست اور پی ٹی آئی جیسی نہیں ہوتی جس میں کسی کو اپنے منصب کا خیال رہتا ہے نہ ملکی مفاد کا رہتا ہے، لال سوہانڑا پارک کی شام بہت حسین تھی، جب سورج بادلوں میں چ±ھپ رہا تھا پارک کے نگرانوں نے ہرنوں کی خوراک کیلئے رکھے گئے برتنوں میں ا±ن کی مخصوص خوراک ڈالی، پھر ایک مخصوص آواز نکالی تو سینکڑوں ہرن ادھر ا±دھر سے نکل کر بھاگ کر وہاں پہنچ کر اپنا ”کھانا“ کھانے لگے، اس دوران کچھ شوخ اور منچلے ہرن انتہائی ”نازیبا حرکتیں“ بھی کر رہے تھے، برطانیہ سے آئے ہوئے میرے عزیز چھوٹے بھائی احمد دستگیر نے ان کی ان حرکتوں کو اپنے موبائل فون کے کیمرے میں محفوظ کرنے کی کوشش کی میں نے اس سے کہا ”یہ کون سے انسان ہیں جنہیں بعد میں ان کی ان حرکتوں کی وجہ تم بلیک میل کر سکو گے“، اس نے کہا ضروری تو نہیں میں ان کی وڈیو انہیں بلیک میل کرنے کے لئے بنا رہا ہوں، اس کے کچھ اور فوائد بھی تو حاصل کئے جا سکتے ہیں“، میں نے کہا چلو پھر مجھے بھی فارورڈ کر دینا، آخر میں ہم حاصل پور کے ایک اور خوبصورت مقام ہیڈ اسلام بھی گئے، یہاں بھی ہم نے کشتی کی سیر کی، درمیان میں پانی اتنا گہرا تھا کشتی جب ڈول رہی تھی میرا تراہ نکل رہا تھا اور مجھے دیکھ دیکھ کر میرے ساتھ والوں کا ہاسا نکل رہا تھا، پھر بیچ میں ایسا مقام بھی آیا جب سب کا تراہ نکل گیا کیونکہ کشتی خراب ہوگئی تھی، فوری طور پر دوسری کشتی کا بندوبست نہ ہوتا یا نہ کیا جاتا آج پورے ملک میں ہمارے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانیاں ہو رہی ہوتیں، ہیڈ اسلام میں ہم نے مچھلیاں بھی پکڑیں، مختلف سائز کی تین چار سول بھی ہمارے ہاتھ لگ گئیں، ایک دو صاف کر کے موقع پر ہم نے پکا لیں، کچھ اپنے ساتھ لاہور لے آئے، بہاولپور میں گزرے ہوئے یہ دن بہت یادگار تھے ، میں دو ایک دن کے لئے گیا تھا مگر کئی دن گزرنے کے بعد بھی وہاں سے واپس جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، بہاولپور کی دعوت مجھے میرے عزیز چھوٹے بھائی محمد اسامہ انور نے دی تھی، وہاں بیشمار خوبصورت لوگوں سے میری ملاقات ہوئی، انہوں نے میری اوقات سے زیادہ مجھ سے جو محبت کی اور جو عزت کی وہ میں کبھی نہیں بھول سکتا، کچھ اعلی افسران بھی ان میں شامل ہیں جن کے نام میں بوجوہ نہیں لکھ رہا کہ اس کم ظرف معاشرے میں حکمران کہیں ان سے ناراض ہی نہ ہو جائیں کہ اچھا یہ ا±س قلم کار کی عزت یا خدمت کر رہے تھے جو اکثر ہماری غلیظ پالیسیوں کے خلاف لکھتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.