نظام ہستی چلانے والی ذات یکتائی کا استعارا ہے یہ اسی ”یکتائی“ کا اعجاز ہے کہ ہرمنظر اپنے فریم کے اندر بند ہے ایک پتہ بھی بلا اجازت نہیں ہل سکتا….
ہم انسان بہت چھوٹی چیزہیں مگرخالق کائنات کے نظام کی تقلیدہی میں معاملہ ہستی کرسکتے ہیں….ہم قبیلے، گروں اورمعاشرے بناتے ہیں ان کے قوانین وضع کرتے ہیں، براعظموں کوڈھونڈتے ہیں ملکوں کی لکیریں کھینچتے ہیں شہروں میں تقسیم کرتے ہیں ضلع تحصیل محلے گلیاں گھردروازے اوراسی تقسیم کے قوانین کے اندر زندگی بسرکرتے ہیں۔
دنیا کا کوئی نظام کچھ پابندیوں اورقوانین کے بغیرنہیں چل سکتا اکثریت اس منظم سسٹم کی حمایت کرتی ہے اور اس کے اندر خود کو اور اپنی نسلوں کو محفوظ خیال کرتی ہے ….انہیں چند گلے بھی ہوتے ہیں حتیٰ کہ گھروں کے آنگنوں میں سکون کی خاطربھائی دلوادیں اٹھا لیتے ہیں مگر باپ کا نام تبدیل نہیں کرتے ….
پاکستان بھی ہمارے لیے ماں باپ کی طرح ہے قائداعظم محمد علی جناح کا تحفہ ہے ….انہوں نے اسے نہ پرانے نہ نئے پاکستان کے نام سے ہمیں دیا صرف ”پاکستان“ کے نام سے یہ عزت بھری چھت ہمارے سروں پر دھری جہاں ہم اپنی بیٹیاں لے کر بیٹھے ہیں اور ہمارے بیٹے سرحدوں پر ہمارے آنچلوں کی حفاظت کررہے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان پر بیرونی صیہونی طاقتوں نے براہ راست تو دھاوا نہیں بولنا ہوتا ہمارے ہی چند کمزورذہن کے لوگوں کو بہکانے کیلئے اپنا کوئی نمائندہ بھیجنا ہوتا ہے۔ گزشتہ دودہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب بھی ہم معاشی طورپر بہترہونے لگتے ہیں اسلام دشمن قوتیں ہمارے سٹریٹجک اثاثوں سے خائف جلنے والے ہمیں پاو¿ں پر کھڑا دیکھ کر ہماری عسکری قوتوں کو کمزور کرنے کے خواہاں ممالک جو ہماراشام اور عراق جیسا حال کرنا چاہتے ہیں اپنے بندے یہاں پلانٹڈکردیتے ہیں جو ایک نئے ملک کا مطالبہ شروع کردیتے ہیں یعنی ریاست کے اندر ریاست کا قیام ….
پاکستان کا پورانام بدلنے کی ہمت نہیں ہوتی تو اس کے ساتھ ”نیا“ کا نعرہ لگا دیتے ہیں اس کے ساتھ ہی وہ پہلے سے موجود پاکستان کے وجودکی نفی کردیتے ہیں اور اس کی جگہ ایک نیاپاکستان بنانے کی بات کرتے ہیں لاکھوںشہیدوں، بیواو¿ں بیٹوں اوربیٹیوں کی عزتوںکی قربانی قائد کے پاکستان کیلئے ہوئی تھی اور نیا پاکستان بنانے کے شوقینوں ہیوی ساو¿نڈ اورڈی جیزکی دھنوں پر رقص سے نیا ملک بنانے کا عندیہ دیاابھی شہیدوں کے لہو کی نہ خوشبو ختم ہوئی ہے ناہی ماو¿ں کے بین بہنوں کی آہیں….
2018ءکے کرداروں وفود ووزرائے اعظموں کی آمد کے موقع پر پرانے پاکستان کو بدنام کرنے کی تیاری آج بھی ویسے ہی شروع ہوجاتی ہے جیسے 9مئی کی ناکام سازش میں ہوئی تھی وردیوں کی توہین کی گئی اپنے ہی وطن کی رکھوالی میں جان دینے والوں کی قبروں کی توہین ہوئی اپنی ہی ایئربیس اور فوجی اڈوں پر حملے ہوئے ایک مخصوص پاکستان مخالف لابی نے آزاد ملک میں خود کو غلام کہنا شروع کردیا افواج پاکستان کی قربانیوں کو ہمارے بزرگوں نے 65ءکی جنگ اور ہم نے اپنے بچپن میں 71ءکی جنگ میں خوددیکھا جب سب جان بچا کر مورچوں میں گھس جاتے تھے محفوظ مقامات پر چلے جاتے تھے تو ہماری فوج سینہ تانے محاذ پر گولی کھانے کو کھڑی تھی کس کیلئے ہماری عزتوں کیلئے نا ….پاکستان کا ہر نوجوان لڑکا تب محاذپر فوجی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیارتھا سیالکوٹ میں جڑھ کے مقام پر ٹینکوں کی لڑائی میں نوجوانوں نے فوجیوں کے ہمراہ قربانیاں دیں ….
اب سوچنے والے بات یہ ہے کہ اس محبت کو کم کرنے کیلئے کس نے جدوجہد کی کس نے اپنی ہی افواج سے محبت کا ناتا تڑوانا چاہا کس نے اٹھارہ سے بیس بائیس سالہ نوجوانوں کو استعمال کیا ذہن سازی کی ان بے شعور بچوں کو کچھ پتہ نہیں کہ ان کو ایک چورچور کا نعرہ سکھا کر میوزیکل شوز میں دھکیل ڈالا اب اگر ان سے پوچھیں کہ بتائیں کیا چوری ہوا جس کی بناپر وہ والد کی عمروں کے لوگوں کو چور کہتے ہیں اور ان کے لیڈر نے قانونی طریقے سے اس چوری کو کیوں عدالتوں میں ثابت نہیں کیا پونے چارسال میں تو وہ تمام کچے چٹھے کھول کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرسکتے تھے ۔….
مگر زبانی نعرے لگاتے رہے وزیراعظم ہو کر سارے کیس کھولنے کی بجائے اپوزیشن کے زمانے کی طرح ٹرک پر چڑھے رہے۔ کیونکہ الزامات ہی جھوٹے تھے دوسرا ان کا مقصد محض نئی نسل میں زہر گھولنا تھا تلخی کودوام کرنا تھا ایک نسل کو گالی گلوچ اور بدتمیزی کا پاٹ پڑھانا تھا اب ایسی زیر آلودہ نسل تیار بیٹھی ہیں جسے وطن کے رکھوالے وطن کی محبت میں کچھ کہتے بھی نہیں عدالتوں میں بھی نرمی ہے لیکن ان کی ذہن سازی کرنے والوں کو دوسری سزا ملنی چاہئے ایک تو انہوں نے پوری نسل تباہ کی دوسرے اپنے لوگوں کو سنادینا کتنا دشوار ہے اس دوراہے پر کھڑا کردیا ….جہاں سب ان نادانوں سے گالی بھی کھاتے ہیں اور ان ریاست سے مکمل انجان بچوں کو سزا بھی نہیں دے سکتے البتہ ان کے لیڈر سزاکے مستحق ہیں اور یہ نوجوان ہدایت کے ….
تبصرے بند ہیں.