ادارے ایسے ہی تباہ ہوتے ہیں

49

 

ایک کہاوت ہے کہ بستی بستے بستے بستی ہے۔ اسی طرح ملکی ادارے بنتے بنتے جب کسی مقام پر پہنچتے ہیں تو اپنے ہی ذاتی مفادات میں ان کو توڑتے ہوئے جب من پسند اور سیاسی تقرریاں کرتے ہیں، میرٹ کو سائیڈ پر رکھ کر اپنے خاندان کو بڑے عہدوں پر جن کے وہ قابل نہیں ہوتے جب توڑنے کا عمل شروع ہوتا ہے تو پھر وہ پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور بڑے سفید ہاتھی جیسے ادارے تباہ و برباد کر دیئے گئے۔ آپ کی بنائی ناقص پالیسیز کی وجہ سے ناکردہ گناہوں کی سزائیں آج عوام بھگت رہے ہیں۔ کاش ہمارے لیڈر میرٹ پالیسی کے تحت بڑے اداروں میں اگر صحیح معنوں میں حق داروں کو حق ملتا تو شاید یہ تباہ شدہ عوامی ادارے کبھی نہ ڈوبتے۔ ہمارے ہاں ایک نہیں ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ حکمرانوں نے کہاں ان بنے بنائے اداروں کو عبرت کا نشان بنا دیا وہ جو کماو¿ پتر تھے ہم ان کو کوڑیوں کے بھاو¿ بیچنے پر مجبور ہو گئے اور صد افسوس کہ ان کو خریدنے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ایک واقعہ کا ذکر کرتا چلوں کہ کوئی اداروں کو تباہ تو کوئی ان کو میرٹ پر چلانے کی خاطر بڑے عہدوں کو بھی قربان کر دیتا ہے۔
محفوظ مصطفی بھٹو جو کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ہمشیرہ کا بیٹا جس کی تعلیمی قابلیت قطعی اس پوسٹ کے معیار کے مطابق نہ تھی لیکن اسے پی آئی اے میں سیلز پروموشن آفیسر جیسی اہم پوسٹ پر تعینات کر دیا گیا۔ محفوظ مصطفی بھٹو کا دفتر ا±س وقت کراچی جم خانہ کلب کے نزدیک تھا، اسے پی آئی اے کی طرف سے ایک بہترین گاڑی اور خاطر تواضع کے لیے پر کشش بجٹ دیا جاتا۔ اس کا نام محفوظ مصطفی بھٹو لیکن عرف عام میں وہ ٹِکو کے نام سے مشہور تھا۔
ممتاز علی بھٹو سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اس لئے محفوظ مصطفی عرف ٹِکو کی تمام سر گرمیوں کا تعلق پی آئی اے سے نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہاو¿س سے مختلف وزرا، سیکرٹریٹ سمیت وفاق کے سرکاری دفاتر میں گھومنے پھرنے اور مختلف فائلوں پر دستخط کرانے تک ہی محدود۔ اس کی پی آئی اے کے معاملات سے اس کی لاپروائی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کے سینئر افسران نے نوٹس لیا، وارننگ لیٹر جاری کئے لیکن اسکے خلاف کوئی انضباطی کارروائی نہ ہوئی۔ چیئرمین پی آئی اے ائیر مارشل ریٹائرڈ نور خان کے علم میں لایا گیا۔ انہوں نے سخت نوٹس لیا اور محفوظ مصطفی کی کھچائی کی اور اسے شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر پی آئی اے میں رہنا ہے تو کام کرنا ہوگا اور کام کی رپورٹ مانگی جائے گی۔ اگر کسی بھی شکایت پر بغیر کسی نوٹس کے گھر بھیج دیا جائے گا۔
محفوظ مصطفی عرف ٹکوکو چیئر مین/منیجنگ ڈائریکٹر پی آئی اے کی جانب سے وارننگ لیٹر جاری ہوا تو چند روز بعد وزیراعظم ہاو¿س سے ایئر مارشل نور خان کو پیغام موصول ہوا کہ پرائم منسٹر لاڑکانہ جا رہے ہیں انہوں نے آپ سے پی آئی اے کے معاملات پر بریفنگ لینی ہے۔ پیغام ملتے ہی ایئرمارشل نور خان نے متعلقہ بریفنگ تیار کیں اور مقررہ دن کراچی سے لاڑکانہ پہنچ گئے جہاں المرتضیٰ ہاو¿س میں وزیر اعظم بھٹو سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس میٹنگ میں ایئرمارشل نور خان نے پی آئی اے کے معاملات پر تفصیل سے بریفنگ دی جو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ میٹنگ کے بعد ائیر مارشل نور خان وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ ملانے کے بعد جانے لگے تو پرائم منسٹر نے سپاٹ لہجے میں کہا: ائیر مارشل مت بھولئے گا کہ بھٹو جہاں بھی ہے وہ بھٹو ہوتا ہے۔
ائیرمارشل نورخان سمجھ گئے کہ انہیں محفوظ مصطفی بھٹو عرف ٹیکو سیلز پرومومشن آفیسرز پی آئی اے کے حوالے سے ان کو متنبہ کیا جا رہا ہے جو والدہ کی طرف سے بھٹو ہے۔ نور خان نے اس بات پر کسی قسم کا رد عمل یا اسکا جواب نہیں دیا بلکہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے وزیراعظم کو خداحافظ کہتے ہوئے لاڑکانہ سے سیدھے کراچی اپنے دفتر پہنچے اور چند منٹوں بعد اپنا استعفیٰ وزیر اعظم ہاو¿س فیکس کردیا۔ محفوظ مصطفی بھٹووہ پہلی ٹیڑھی اینٹ تھی جو سابقہ وزیر اعظم بھٹو کے ہاتھوں پی آئی اے میں لگی اور اس کے بعد تو پوری عمارت ہی ٹیڑھی اینٹوں سے بھردی گئی وہ پی آئی اے جو ایئرمارشل نورخان کے زمانے میں پاکستان کے وقار کی علامت تھی آج پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کی وجہ بن گئی ہے۔ میڈیا سمیت ہوائی سفر کے تمام محکموں اور برانچوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ائیرمارشل نور خان کے بعد پی آئی اے آہستہ آہستہ نیچے کی جانب گرتی چلی گئی اور پھر ایسی گری کہ کبھی سنبھالی ہی نہیں جا سکی۔ آج نہیں تو کل وقت بتائے گا کہ جو ائیر لائن کبھی دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتی تھی، تباہی کی اِس حالت کو کیسے پہنچی؟
اور آخری بات….
یہ تو ایک بڑے ادارے کی تباہی کا سبب بننے والی ایک مثال ہے کہ حکمران جب اپنی رشتے داریوں کو نبھائیں گے تو پھر اداروں نے تو تباہ ہونا ہے۔ میرے نزدیک وزیراعظم ہاو¿س سے لے کر کسی ادارے کے سربراہ تک جب محفوظ مصطفی جیسے کرداروں کو ان سے دور نہیں رکھیں گے ایسی تباہیاں ہماری وراثت میں لکھی جاتی رہیں گی۔

تبصرے بند ہیں.