(گزشتہ سے پیوستہ)
مسجدِ نبوی کے جنوب مشرقی سمت کے بڑے گیٹ نمبر 365 سے مسجدِ نبوی کے اس سمت کے وسیع و عریض بیرونی احاطے میں داخل ہو کر آگے بڑھیں تو دائیں ہاتھ (مسجدِ نبوی کی مشرقی سمت میں) ایک اُونچی دیوار دکھائی دیتی ہے جو اڑھائی تین سو گز یا اُس سے کم یا زیادہ فاصلے پر ذرا اُونچی جگہ پر بنے ایک بڑے گیٹ پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ اس دیوار کے باہر چڑھائی پر بنے گیٹ تک ایک کشادہ راستہ بھی بنا ہوا ہے۔ مدینہ منورہ آمد کے بعد اگلے دو تین دنوں تک مسجدِ نبوی آتے جاتے میرے ذہن میں یہ خیال اُبھرتا رہا کہ جاننا چاہیے کہ اس دیوار کے دوسری طرف کیا ہے کہ اس کے باہر راستے پر اتنے لوگ (صرف مرد) چلتے اور گیٹ سے اندر جاتے اور باہر نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس خیال کے ساتھ میرے ذہن کے نہاں خانے میں یہ موہوم سی یاد بھی موجود تھی کہ 1983 ءمیں حج کے موقع پر مدینہ منورہ آنا ہوا تھا تومسجدِ نبوی کی شاید اسی سمت میں جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو دیکھنے اور وہاں فاتحہ کے لیے دعائیں مانگنے کا موقع ملا تھا۔ ہو نہ ہو اس دیوار کے پیچھے جنت البقیع کا قبرستان ہی نہ ہو۔ پھر ایسا ہوا کہ انہی دنوں راضیہ نے ذکر کیا کہ جنت البقیع کے قبرستان کی زیارت کرنی ہے تو واجد جسے پہلے سے معلوم تھا کہ جنت البقیع کے قبرستان میں خواتین کا داخلہ منع ہے نے اُسے بتایا کہ آپ خواتین جنت البقیع میں نہیں جا سکیں گی کہ وہاں خواتین کو داخلے کی اجازت نہیں ہے البتہ ہم (میں، عمران اور واجد) انشاءاللہ جلد جنت البقیع میں داخلے کا پروگرام بنا لیں گے۔
پھر اُسی دن یا اُس سے ایک دن بعد کی بات ہے کہ ہم ظہر کی نماز اور اُس کے بعد امام صاحب کی اقتداءمیں ہی نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعدمسجدِ نبوی سے باہر آئے اور ہوٹل جانے کے لیے مسجدِ نبوی کے جنوب مشرقی سمت کے اپنے مقررہ گیٹ 365 کا رُخ کرنا چاہا تو وہاں مسجدِ نبویکی جنوبی دیوار کے ایک مقررہ حصے کے ساتھ تین چار خاص طرح کی بنی چھوٹی گاڑیاں کھڑی نظر آئیں۔ شاید عمران نے ذکر کیا کہ یہ مسجدِ نبوی میں نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے لیے میت لانے اور واپس لے جانے والی مخصوص گاڑیاں ہیں ۔ اسی دوران اندر سے کچھ لوگ میت کی ڈولی نما چارپائی کو اُٹھائے ان گاڑیوں کے قریب آئے لیکن انہوں نے میت کی ڈولی یا چارپائی گاڑی
پر رکھنے کی بجائے بازﺅں پر ہی اُٹھائی رکھی اور تیز قدموں سے مشرقی سمت میں دیوار (جس کا اُوپر ذکر ہوا ہے) کے باہر بنے راستے کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں وہ چڑھائی والے راستے پر چلتے ہوئے بڑے گیٹ تک جا پہنچے اور اندر داخل ہو گئے۔ معاً مجھے خیال آیا کہ یہ دیوار جس کے بارے میں کسی حد تک تذبذب کا شکار تھا کہ اس کے پیچھے کیا ہے تو واقعی یہ جنت البقیع کی مغربی سمت کی دیوار ہے۔
وہ کوئی ایک سوا ایک بجے کا وقت تھا اور دھوپ بھی کافی تیز تھی لیکن ہم تینوں (میں ، عمران اور واجد) نے فیصلہ کیا کہ ابھی جنت البقیع کی زیارت کر لیتے ہیں۔ چنانچہ جنت البقیع کی مسجدِ نبوی کی سمت والی مغربی دیوار کے ساتھ راستے جو ذرا اُونچائی پر بنے جنت البقیع کے گیٹ (جس کا اُوپر ذکر ہوا ہے) کی طرف جاتا ہے چل پڑے ۔ گیٹ کے اندر داخل ہوئے تو ہمارے سامنے اور ہمارے دائیں بائیں دور دور تک قبریں جنہیں مٹی کی ڈھیریاں بھی کہا جاسکتا ہے پھیلی ہوئی تھیں۔ ایک جیسی نظر آنے والی ان قبروں کی لمبائی بمشکل پانچ ساڑھے پانچ فٹ اور چوڑائی ڈیڑھ ، دو فٹ اور اُونچائی دس بارہ انچ ہو گی اور سرہانے ایک پتھر رکھا ہوا یا لگا ہوا نظر آتا ہے۔ ہم قبروں کے درمیان دائیں طرف آگے جانے والے راستے پر ہو لیے۔ بہت دور تک قبریں پھیلی ہوئی نظر آ رہی تھیں تو انتہائی دور شمال مشرقی کونے میں کھدائی کرنے والی کوئی مشین یا مشینیں بھی دکھائی دے رہی تھیں جیسے کھدائی کر کے نئی قبروں کے لیے مزید ہموار جگہ بنائی جا رہی ہو۔ پیچھے دور کچھ کم اُونچی چٹانیں اور کونے میں مٹی اور پتھروں کا ڈھیر بھی نظر آ رہا تھا۔ ایک جگہ کھڑے ہو کر ہم نے مغفرت اور بخشش کی دعائیں دہرائیں اور راستہ جو بائیں طرف گھوم رہا تھا اس پر چلتے ہوئے واپس گیٹ کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جنت البقیع کے قبرستان میں اہل بیت عظام ، نبی پاک کی صاحبزادیاں ؓ، امہات المومنین ؓ، صحابہ کرامؓ اور دوسری بہت سی بلند مرتبت ہستیاں جن میں محدثین اور مفسرین بھی شامل ہیں دفن ہےں لیکن ان کی قبروں کی کوئی خاص پہچان یا نشان موجود نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پہلے کچھ قبروں پر جن میں نبی پاک کی پیاری صاحبزادی حضرت فاطمہؓ اور آپ کے شیر خوار صاحبزادے حضرت ابراہیم ؓ اور خاندانِ نبوت (اہل بیت) سے تعلق رکھنے والی کچھ دیگر ہستیوں اور خلیفہ سوم امیر المومنین حضرت عثمان ؓ کی قبریں شامل تھیں۔ ترک عثمانی خلفا کے دور میں ان پر کچھ گنبد نما اور محراب نما تعمیرات یا چھوٹے چھوٹے مزار بنائے گئے تھے جنہیں 1910 کے بعد موجودہ سعودی حکمرانوں کے دور میں مٹا دیا گیا تھا۔ البتہ اب بھی چند ایک قبریں پتھروں سے بنے چاردیواری نما چھوٹے چھوٹے احاطوں میںضرور نظر آتی ہیں۔ ان میں سے دور شمالی مشرقی کونے میں پتھروں والے چھوٹے سے احاطے میں پُرانی قبر کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ خلیفہ راشد حضرت عثمان ؓ کی قبر ہے تو گیٹ کی طرف آتے ہوئے اسی طرح کے احاطے میںاور چھوٹی سی قبر کے بارے میں کچھ اس طرح کا پتہ چلا کہ یہ نبی پاک کے صاحبزادے حضرت ابراہیم ؓ کی قبر ہے۔
جنت البقیع میں قبروں اور مدفون ہستیوں کا تذکرہ اس کے تاریخی پسِ منظر اور اس کے مقام اور مرتبے اور اس کی فضیلت اور بڑائی کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔ نبوت کے تیرویں برس مسلمان نبی پاک کی معیت میں مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ (یثرب) ہجرت کرنے پر مجبو ر ہوئے تو یثرب مدینتہ النبی کے نام سے ہی نہ پکارا جانے لگا بلکہ اس بستی کی معاشرتی ، تہذیبی، تمدنی اور تعمیری زندگی میں بھی ترقی شروع ہوئی۔ دینِ اسلام کو فروغ حاصل ہوا اور دینِ حق قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے کوئی مناسب جگہ متعین ہو جائے۔ آپ مسجدِ نبوی کے مشرق میں دور فاصلے پر بقیع کے نام سے موسوم جگہ جہاں جنگلی پودے ، جھاڑ جھنکار، کانٹے دار پیڑ (غرقد) پائے جاتے تھے وہاں تشریف لے گے۔ آپنے ارشاد فرمایا ”مجھے اس جگہ( یعنی بقیع)کا حکم (قبرستان کے لیے) دیا گیا ہے۔“اس طرح سن 622 عیسوی میں بقیع کے قبرستان کا آغاز ہوا جو اپنی فضیلت اور یہاں دفنائے جانے والی شخصیات کی بزرگی ، تقدس اور اُونچے مقام کی بنا پر جنت البقیع کے نام سے معروف ہوا۔
جنت البقیع کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ یہاں دس ہزار صحابہ کرامؓ،نو امہات المومنین ، آپ کی چاروں صاحبزادیاں، آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ، اہل بیتؓ، اولیا اللہ ، صوفیاء، علما، محدثین اور مفسرین مدفون ہیں۔ سب سے پہلے انصارِ مدینہ میں سے اسد بن زرارہؓ اور عثمان بن معظونؓ یہاں دفن ہوئے اب بھی مدینہ پاک میں سے بعض لوگوں کو جنت البقیع میں دفن ہونے کا اعزاز حاصل ہو تا ہے تو حج اور عمرہ کے لیے جانے والے زائرین میں سے بھی اگر کوئی فوت ہو جائے تو اُنہیں بھی جنت البقیع میں دفن ہونے کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.