آئیے! ہاتھ اٹھائیں ہم بھی

43

 

سال کا آخری مہینہ حساب کتاب کا مہینہ سمجھا جاتا ہے جسے دفتری زبان میں آڈٹ اور ادبی زبان میں حساب سود و زیاں کہا جاتا ہے جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچے ہیں ہمارا یہ سفر ہمیں منزل سے کتنا قریب یا کتنا دور لے جا رہا ہے۔ ہمارے قدموں کے نشان ہماری مسافتوں کا سراغ ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو جو تصویر ابھرتی ہے وہ اتنی خوشنما نہیں ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ زندگی کے پانیوں کا بہاو¿ سود و زیاں کے قطروں سے بالاتر ہے اس میں تو بالآخر جان تک چلی جاتی ہے لہٰذا اس کو آج اور کل کے پیمانوں میں ناپ تول نہ کریں کیونکہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں وقت کا یہ دریا بہتا ہی چلا جائے گا:
برتر از اندیشہ¿ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
تُو اسے پیمانہ¿ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی
یہ پاکستان کی سالانہ سیاسی آڈٹ رپورٹ کی بات ہو رہی ہے پچھلے کچھ عرصے سے ہم نے قومی سیاست پر لکھنے سے گریز کیا ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ لکھنے کے لیے ایسا موضوع تلاش کیا جائے جس سے امید کی کرن پھوٹنے کا امکان ہو۔ دوسری وجہ قومی سیاست میں عدم تحمل اور عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ لکھاری بھی جانبدار ہو گئے ہیں یہاں تک کہ چوٹی کے لکھنے والوں کے بارے میں قارئین کو پہلے ہی پتہ ہوتا ہے کہ فلاں کالمسٹ کس کا مو¿قف پیش کرے گا۔
ہماری سیاست کا پورا سال اختلاف، انتقام اور مزاحمت کی سیاست میں بسر ہوا دور دور تک مصالحت یا مفاہمت یا وسیع ترقومی مفاد کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔ اپریل 2022ءمیں عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم حکومت کے قیام کے spillover effect بڑھتے بڑھتے 2023ءمیں بھی جاری رہے۔ اس کے بعد 2024ءمیں فروری میں ہونے والے انتخابات اور ان کے نتائج نے قوم کو پہلے سے زیادہ تقسیم کر دیا۔ اور سال کے
اختتام پذیر ہونے پر صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ آلودگی ساتھ لے کر ہی ہم نئے سال میں داخل ہوں گے۔
پہلے یہ ہوتا تھا کہ جب عدم برداشت حد سے بڑھتی تھی تو کوئی نہ کوئی اندرونی یا بیرونی قوتوں کی مداخلت سے معاملات کو مزید خراب ہونے سے روک لیا جاتا تھا اور کوئی نہ کوئی میکانزم نکل آتا تھا جس سے ملک میں سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہوتی نظر آ جاتی تھی ۔ 2008ءسے 2018ءتک کا دور جسے کچھ لوگ اپنی باری کا انتظار کرنے والا دور کہتے ہیں اس لحاظ سے کچھ بہتر تھا کہ باری کا انتظار کرنے والے آپے سے باہر نہیں ہوتا تھا اور ایک دوسرے کو برداشت کیا جاتا تھا۔ لیکن 2018ءسے 2024ءتک کا دور سیاست میں ذاتی دشمنی انتقام اور خون کے پیاسے ہونے کا دور ہے جس میں اپنے مخالف کے خاتمے کے لیے زمین و آسمان ایک کیے جا رہے ہیں۔ لیکن main stream سیاسی جماعتیں یہ سمجھ نہیں پا رہیں کہ یہ بادشاہتوں کا دور نہیں ہے کہ جنگ میں ہارے والوں کی آنکھیں نکلوا دی جائیں یا مغلوب ہونے والوں پر زمین تنگ کر دی جائے۔ جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا اس میں مخالف فریق کو برداشت کیا جاتا ہے۔ مگر ہماری سیاسی قیادتوں نے عوام کو واضح طور پر تقسیم کر دیا ہے۔ وہ اتنے پکے اور پختہ ہیں کہ اپنے اپنے لیڈر کی کرپشن دیکھ کر بھی اس کی حمایت سے دست کش نہیں ہوتے۔
اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ دوست ممالک بھی ثالثی کے لیے تیار نہیں ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا روزمرہ کا معمول ہے بڑی طاقتیں اپنے تحفظات رکھتی ہیں اور معاملات کو اپنے طریقے سے دیکھ رہی ہیں۔ اس سارے عرصے میں کوئی مثبت بات اگر نظر آتی ہے تو وہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو دیا جانے والا قرضہ ہے ہم وہ قوم ہیں جو قرض ملنے میں کامیابی پر جشن مناتے ہیں حالانکہ مقروض ہونا بربادی کی نشانیوں کا پیش خیمہ ہے۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ 37 ارب ڈالر سے ان کے تخت نشینی کا عرصہ بآسانی گزر جائے گا باقی قرضہ کی واپسی کا بوجھ ان کے بعد آنے والوں پر لد جائے گا۔
اسی اثنا میں اپوزیشن کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش سامنے آئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے سارے حربے استعمال کر کے دیکھ لیے ہیں مگر ان کی ایک نہیں چلنے دی گئی۔ 2024ءملکی تاریخ کا سب سے زیادہ سیاسی طور پر split year تھا جس میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر خنجر آزمائی کرتے رہے اور یہ سلسلہ پے در پے جاری رہا۔
سال کے آخری مہینے میں ڈائیلاگ کا جو بیانیہ سامنے آ رہا ہے اس کی کامیابی کے امکانات روشن نہیں ہیں کیونکہ حکومت کا انداز فاتحانہ ہے اور طنز و مزاح اور طعنہ زنی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ اس میں صدق دلی شامل نہیں ہے اور جب نیک نیتی نہ ہو تو پھر مذاکرات کی کامیابی کسی معجزے سے کم نہیں۔
ان حالات میں اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو پاکستان نئے سال میں بھی پرانے حساب کتاب اور انتقامی سیاست کے تسلسل کے ساتھ داخل ہو گا۔ اوپر سے اتنے بڑے بڑے معاشی چیلنجز در پیش ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ ڈائیلاگ میں نئے انتخابات پر بھی بات چیت ہو گی گزشتہ سال کے انتخابات تاریخ کے متنازع ترین انتخابات تھے اور اگر سیاستدان واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کو آگے لے کر جانا ہے تو نئے انتخابات ہی مسئلے کا حل ہیں۔ پاکستان کی سیاست کے بارے میں پیش گوئی کرنا ہمیشہ ہی ناممکن بات ہے اس لیے قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بقول فیض احمد فیض:
آئیے ہاتھ اٹھائیں کہ نگارِ ہستی
زہرِ امروز میں رنگینی¿ فردا بھر دے
وہ جنہیں تاب گرانباری ایام نہیں
ان کی پلکوں سے شب و روز کو ہلکا کر دے
جن کی آنکھوں کو رخ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منو ر کر دے
جن کے قدموں کو کسی راہ کا سہارا ہی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کر دے
جن کا دیں پیروی¿ کذب و ریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے جرا¿ت تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں ان کو
دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

تبصرے بند ہیں.