اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے حوالے سے کیس میں فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دی ہے۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں یہ بنچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواست کی سماعت کر رہا تھا۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں دلائل دیے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں یا نہیں؟ اور کیا اس میں ترمیم کر کے ہر فرد کو اس کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے؟ اس کے علاوہ، جسٹس مظہر نے بھی سوال کیا کہ عدالت نے دفعات کو کالعدم قرار دینے کی وجوہات کیا بیان کی ہیں؟
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کچھ خرابیاں ہیں، جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ فیصلے کو اس طرح بے توقیر نہ کریں کہ اسے خراب کہا جائے۔ خواجہ حارث نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے معذرت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کی تفصیلات ابھی تک فراہم نہیں کی گئیں، اور اگر کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک محدود رکھنا ہے تو عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام تفصیلات صبح ہی موصول ہوئی ہیں اور وہ انہیں متفرق درخواست کے طور پر جمع کرائیں گے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ جن دفعات کو کالعدم کیا گیا ہے، ان کے تحت جو ٹرائل ہوئے ہیں ان کا کیا ہوگا، خصوصاً 9 مئی سے پہلے ان دفعات کے تحت جو سزائیں دی گئی ہیں؟
اس کے بعد سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آج کی سماعت کے دوران فوجی عدالتوں کو ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔ تاہم، عدالت نے یہ شرط رکھی کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمے کے فیصلے کے بعد کیے جائیں گے۔
آئینی بینچ نے کہا کہ جن ملزمان کو سزا میں کمی دی جا سکتی ہے، انہیں رہا کر دیا جائے، جبکہ جو ملزمان رہا نہیں ہو سکتے، انہیں سزا سنانے کے بعد جیل منتقل کیا جائے۔ مزید برآں، عدالت نے ملٹری کورٹس کے کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دی۔
تبصرے بند ہیں.