کورٹ مارشل اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید

48

بالآخر کافی انتظار کے بعد افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی طرف سے وہ پریس ریلیز جاری ہو ہی گئی جس کا قوم کو شدت سے انتظار تھا۔ اس پریس ریلیز کے مطابق 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کی متعدد دفعات کے تحت شروع ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں سابق ڈی جی سی آئی ایس آئی و چیف آئی ایس آئی اور آخر میں کور کمانڈر پشاور کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی آگے بڑھانے کے لیے مختلف الزامات کی بنیاد پہ فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ اس میں کچھ اہم اور قابل ذکر الزامات سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی متعدد خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال، افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا ہیں۔

یاد رہے کہ جہاں پاکستان آرمی ایکٹ کی ان دفعات کے تحت موصوف کو قید کی سزا ہو سکتی ہے وہیں دوسرے نقطے یعنی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ثابت ہو جانے پہ سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موصوف کو ریٹائرمنٹ کے بعد متعدد دفعہ وارننگ دی گئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو سیاسی و دیگر امور جو ادارے اور ریاست کے وقار اور سالمیت کے منافی ہوں، ان سے دور رکھیں۔ لیکن بدقسمتی سے موصوف نے ان وارننگز کو خاطر خواہ اہمیت نہ دی۔ اسی طرح فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق 9 مئی کے پُرتشدد واقعات میں جنرل (ر) فیض حمید کے ملوث ہونے سے متعلق علیحدہ تفتیش بھی کی جا رہی ہے اور اس ضمن میں کافی کام ہو چکا ہے اور کافی ثبوت اکٹھے کیے جا چکے ہیں۔

یہاں اب قارئین کو 2017 میں واپس لے جانا ضروری ہے کہ جہاں پہلی دفعہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید جو اس وقت آئی ایس آئی میں ڈی جی سی کے عہدے پہ فائز تھا، اس وقت ٹی ایل پی کے دھرنے کو ختم کرانے والی دستاویز یا معاہدے پہ اس کا نام لکھا
سامنے آیا۔ اسی معاہدے کی بنیاد پہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس وقت کے آرمی چیف کو پابند کیا کہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث جنرل فیض سمیت دیگر آرمی افسران کے خلاف آئین، قانون کی خلاف ورزی اور اپنے حلف سے رو گردانی کرنے پہ کارروائی کی جائے۔ پھر اسی دور میں موصوف پہ 2018 کے الیکشن سے پہلے اور الیکشن مہم کے دوران سیاسی انتقام، مخالف پارٹی کے لیڈروں کی ناحق گرفتاریوں اور کھل کر ایک سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کی حمایت اور دوسری سیاسی پارٹی یعنی پی ایم ایل این کے نامزد امیدواروں کی سیاسی وفاداریوں کی زبردستی تبدیلی کے الزامات بھی سامنے آئے۔ بعد ازاں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پہ پی ٹی آئی کی حمایت میں الیکشن کے نتائج میں تبدیلی، آر ٹی ایس سسٹم کو غیر فعال کرانا، پی ٹی آئی حکومت بنوانے کے لیے آزاد امیدواران پہ دباؤ ڈال کر انہیں پی ٹی آئی میں شامل کرانے جیسے الزامات لگائے۔ اسی طرح موصوف پہ اسمبلی میں قانون سازی کے لیے تعداد پوری کرنے کا الزام بھی لگا اور پھر یہی بات اس وقت کے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے بھی کنفرم کی کہ جنرل فیض حمید اس سارے عمل کا حصہ رہے اور حکومت کو ہر موقع پر مدد فراہم کرتے رہے۔ اسی عرصے میں ہی دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج جناب جسٹس شوکت صدیقی نے بھی جنرل فیض حمید پہ الزام لگایا کہ وہ عمران خان کی حکومت بنوانے کے لیے اپوزیشن لیڈران کے کیسز میں اپنی مرضی کے بنچ بنواتے اور فیصلے لیتے رہے ہیں اور اس عمل میں اعلیٰ عدلیہ کے کچھ عناصر بھی انکے حواری بنے رہے۔

جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے اعمال نا صرف انا پرستی، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ملکی سالمیت اور قوم کی بھلائی و ترقی کے خلاف تھے بلکہ اس کے وہ اعمال ذاتی منفعت کی خاطر اپنے ادارے کے خلاف بھی تھے۔ کیونکہ موصوف نے 9 مئی کو اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے کارکنان کو اپنے ہی سابق ادارے پہ چڑھ دوڑنے کا سبق سکھایا۔ پھر قوم سمیت پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح جنرل فیض کی حمایت یافتہ پارٹی پی ٹی آئی کے کارکنان نے پورے ملک میں دو سو سے زائد مقامات پہ سکیورٹی فورسز کے ارکان اور املاک پہ حملے کیے، انہیں نذر آتش کیا اور سب سے بڑھ کر شہداء وطن کے مجسموں کی بے حرمتی کی۔ جس سے ادارے میں موصوف کے خلاف نا صرف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی بلکہ اس قبیح عمل میں موصوف سمیت ملوث تمام لوگوں کو نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا تا کہ آئندہ کسی کو ایسی جرأت نہ ہو۔ یہاں یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ اگر شکنجہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے گرد کسا جا رہا ہے تو ساتھ کچھ سویلین بھی ہیں۔ اور ان میں اس وقت کا وزیر اعظم اور جنرل فیض کا چہیتا عمران خان بھی شامل ہے۔ لہٰذا اگر چند ہفتوں تک عمران خان کو ملٹری کورٹ ٹرائل کے لیے ملٹری کے حوالے کر دیا جاتا ہے تو اچنبھے کی بات نا ہو گی کیونکہ ان کے خلاف ثبوت بہت بھی ہیں اور ناقابل تردید بھی۔

اسی سلسلے میں جب ایک اور سینئر آرمی آفیسر سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ جہاں ہم اپنے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں اپنے ادارے کو صاف کر رہے ہیں، وہیں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ دیگر آئینی ادارے بھی ہمت کریں اور اپنے اداروں کو وطن بیزار، سیاسی پسند نا پسند کی بنیاد پہ فیصلے دینے والے، آئین اور قانون کو روندنے والے کرپٹ عناصر سے پاک کریں۔ انہوں نے کہا کہ اب سیاستدانوں پہ بھی پہلے سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنی پارٹیوں میں دیانتدار اور محب وطن لوگوں کو آگے لا کر اسمبلیوں میں پہنچائیں۔ تاکہ نیب زدہ یا فائل زدہ بکاؤ عناصر سے ان کی ننگی کرپشن کی بنیاد پہ دھونس سے کرائی گئی ضمیر فروشی اور دھاندلی والا مسئلہ بھی ختم ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیاستدانوں اور پارٹی لیڈران کے پاس اگلے الیکشن تک کا وقت ہے۔ اسے ملک اور قوم کے پاس آخری موقع گردانا جانا چاہیے، ورنہ ملک اور قوم کی ترقی محض اک خواب بن کر رہ جائیگی۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں بھی بلا رو رعایت اپنی صفوں سے کرپٹ، ضمیر فروش، موقع پرست لوٹوں اور کالی بھیڑوں کو نکال باہر کریں۔ تاکہ دیانتدار لوگ قوم کی حقیقی نمائندگی کرنے کے لیے آگے آئیں اور وطن عزیز امن کا گہوارہ بنے اور ملک اور قوم دوگنی رفتار سے ترقی کی منازل طے کر سکیں۔

تبصرے بند ہیں.