جمہوری راستے سے گریز کا نتیجہ

60

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ملک انتہائی نازک اور حساس صورتحال سے گزر رہا ہے۔ گاندھی جی سے لے کر مولانا ابو الکلام آزاد تک نے اپنی تحریروں اور نجی بات چیت میں یہ کہا تھا کہ پاکستان زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گا بلکہ یہ دوبارہ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی کتاب ـ ــــ” India Wins Freedomـ” میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان 25 سال کے بعد دوبارہ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ ان دونوں بھارتی رہنماؤں کی پیشین گوئیاں سقوطِ مشرقِ پاکستان کی صورت میں پوری ہو چکی ہیں، لیکن اور بات کہ بنگلہ دیش بھارت میں ضم نہیں ہوا۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد بھارت کی اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے برملا کہا تھا کہ میں نے مسلمانوں کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا۔ وہ تو بچے کھچے مغربی پاکستان کو بھی ہڑپ کرنا چاہتی تھیں ، لیکن بیرونی دنیا کی مداخلت اور تنبیہ کی وجہ سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یقیناً اب پھر ویسی ہی صورحال ہے جب پاکستان پر آشوب دور سے گزر رہا ہے۔ جس طرح مشرقی پاکستان کے حالات خراب کرنے میں غیروں سے زیادہ اپنوں کا ہاتھ تھا، اسی طرح آج کل بھی پاکستان کے سیاسی حالات خراب کرنے کے ذمہ دار اپنے ہی اربابِ اختیار ہیں۔موجودہ صورتحال میں اصل سوال یہ ہے کہ اس بحران کا حل کیا ہے۔خواہ اپنی مرضی سے یا نہ چاہتے ہوئے وطنِ عزیز میں آرمی نے 37 سال تک حکومت کی۔ ایوب خان نے 1958ء میں ابھی پاکستان کو قائم ہوئے 11 سال ہی ہوئے تھے کہ مارشل لاء لگا دیا، پھر اس کے بعد سے پاکستان کی صورتحال ہمیشہ دگرگوں رہی۔مشرقی پاکستان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ گئی اور بنگلا دیش وجود میں آ گیا۔ بد قسمتی سے پاکستان جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتا ہے حالانکہ درپردہ کالیں اور احکامات آتے رہتے ہیں۔

77 برس گزر جانے کے باوجود ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ جاننے کی کوشش کی کہ ہم آج تک ایک مصیبت زدہ غریب ملک کیوں ہیں اور یہ کہ اس المناک صورتحال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ 77 برسوں کی ناکامیوں کے یوں تو کئی اسباب ہوں گے تاہم اس کی بنیادی وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے آزادی کے بعد جمہوریت کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا اور اس کی بدترین قیمت ادا کی۔بعض حلقے لفظ ” جمہوریت” کا مضحکہ اڑاتے ہیں، جو یہ کرتے ہیں وہی اس ملک کے تمام مسائل کے ذمہ دار بھی ہیں۔ پاکستان انسانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور یہاں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جمہوریت ملک کو متحد رکھتی، حکومتیں جواب دہی کے خوف سے کام کرتیں، نااہل سیاستدان رفتہ رفتہ انتخابات کی چھلنی سے چھن کر کب کے قصۂ پارینہ بن چکے ہوتے۔ملک میں سیاسی استحکام ہوتا، قانون کی حکمرانی ہوتی، صبر، ضبط اور تحمل ہمارا مزاج ہوتا۔مگر ابتداء سے ہی اقتدار کی ہوس نے ہمارے ملک کو تباہ کیا، دنیا سوچتی ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جنہیں اپنے ملک کی نہیں صرف اپنے اقتدار کی فکر ہے۔ ہمارے ہاں کبھی اس بات کو اہمیت نہیں دی گئی کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ دھاندلی کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آنے کی کیا ضرورت تھی، جس کو عوام نے ووٹ دیئے تھے اسی کو حکومت ملنا چاہئے تھی، پھر اس کے بعد انہی کی باری ہونی تھی۔ اقتدار میں آنے کی اس انداز میں جلدی کیا تھی۔

آج ہم اپنی آزادی کے آٹھویں عشرے میں داخل ہونے کے قریب ہیں بطور قوم اپنی ماضی کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھیں تو کوئی حوصلہ افزا صورتحال نظر نہیں آتی اور محسوس ہوتا ہے کہ خواب پورے نہیں ہوئے جن کی تعبیر ایک الگ وطن کے قیام کی شکل میں ہمارے بزرگوں نے تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ آج جب ہم تاریخ کے ایک نئے دوراہے پر کھڑے ہیں تو مناسب ہو گا کہ اس امر کا اعتراف بھی کر لیا جائے کہ ماضی میں سیاسی سطح پر ہم سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئیں اور بعض سیاستدانوں کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے اس سارے عرصہ کے دوران یہاں چار مرتبہ آمرانی حکومتیں قائم رہی ہیں اور اس حقیقت سے سبھی آگاہ ہیں کہ ان ادوار میں ملکی ترقی اور قومی خوشحالی کا پہیہ الٹا گھومتا رہا۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہاں آمرانہ حکومتیں قائم نہ ہوتیں تو ہمارا ملک آج کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ اور جدید ہوتا، یہاں عوام کو زیادہ سہولتیں میسر ہوتیں، شائد اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بد ترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کے احتجاج سے جس طرح کا سلوک ہوا ہے اس کے بہت سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں ۔ اب جب کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے لئے اپنے وفد کا اعلان کر دیا ہے تو بہتر طریقہ یہی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے سنگین صورتحال کا حل نکالا جائے۔ اب تمام سیاسی رہنماؤں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مفاہمانہ فضا کو استحکام بخشنے کے لئے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ ہمارا ملک متعدد اور مختلف وجوہ کی بنیاد پر نہ صرف ترقی کی دوڑ میں دیگر اقوامِ عالم سے پیچھے رہ گیا ہے بلکہ عالمی اور علاقائی عوامل کی وجہ سے کئی قسم کے مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔ دہشت گردی، بے روزگاری، مہنگائی، افراطِ زر، غربت اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے شعبوں کی کارکردگی میں زوال مسائل بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ مسائل اور مشکلات کا ایک ایسا گرداب ہے جس سے ملک اور قوم کو نکال کر ترقی کی راستے پر گامزن کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ ملک کی تمام سیاسی قوتیں مل کر کام کریں گی اور عوام بھی مختلف حوالوں سے ان کا بھرپور ساتھ دیں گے تو ہی ان مسائل کا حل ممکن ہو سکے گا۔

تبصرے بند ہیں.