گذشتہ ہفتہ مصروفیات کے باعث کافی ہنگامہ خیزرہا۔ اسلام آباد میں اہم ملاقاتوں اور نئے جوائنٹ وینچرز کے لئے چار دن کا شیڈول بناتو فیملی نے بھی ساتھ جانے کا مطالبہ کر دیا۔ صرف اس خیال سے کہ ایک تو لاہورکی آلودہ فضا سے نکل کر چار دن بہتر ہوا میں سانس لے سکیں گے دوسرا عمرہ کر کے آئی اپنی پھوپھی کو مبارک باد بھی دے لیں گے۔ منگل کی رات اسلام آباد پہنچے تو میرے گیارہ سالہ بیٹے مصطفیٰ نے گاڑی کے شیشے سے جھانک کے آسمان کی جانب توجہ دلائی کہ دیکھیں تاروں کی چمک بالکل صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ادھر حالات یہ ہیں کہ لاہور میں رات کے تارے تو درکنار دن کا سورج بھی دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ اگلی صبح چیئرمین چین سٹور ایسوسی ایشن اسفند یار فرخ کے ہمراہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے کانووکیشن میں شرکت کرنا تھی۔ چین سٹور کی جانب سے بزنس سٹڈیز کی فیکلٹی میں سب سے نمایاں طالب علم کے لئے ایک لاکھ کا کیش پرائز دیا جانا تھا۔ این ڈی یومیں باقی یونیورسٹیزکی نسبت نوجوان طلبہ و طالبات میں ایک خاص قسم کا ڈسپلن اور اعتماد جھلک رہاتھا جوکہ ادارے کی تربیت اور پیدا کئے جانے والے رویوں کا عکاس تھا۔ ہمیں تقریب میں طے شدہ خصوصی نشستوں پر بٹھایا گیا۔ حیران کن طور پر بہترین طلبہ کے زیادہ ترانعامات معاشی اعتبار سے درمیانے درجے کے طلبہ نے سمیٹے۔ ایک اور خاص بات مہمان خصوصی لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کا اعزاز حاصل کرنے والے طلبہ کے والدین کو سٹیج پر بلا کر عزت افزائی کرنا ان طلبہ اور والدین کے لئے یادگار لمحہ تھا۔ چین سٹور کی جانب سے چیئرمین اسفند یار فرخ نے فیکلٹی کی بہترین طالبہ حلیمہ سعدیہ کو ایک لاکھ کا چیک پیش کیا تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ والدین کی خوشی الگ دیدنی تھی۔یہ انعام سے زیادہ اعزاز تھا۔ اب یہ انعام ہر سال دیاجائے گا۔ اگلے دن ہمیں پھر این ڈی یو آنا تھا جہاں بزنس اور پالیسی سٹڈی کی فیکلٹی اور طلبا کے ساتھ پاکستان میں حکومتی ضابطے کس طرح مارکیٹ اکانومی کو متاثرکرتے ہیں کے موضوع پرایک مکالمہ طے تھا۔ اس مکالمے پرچین اسٹور کے پیٹرن انچیف رانا طارق محبوب اور چیئرمین اسفند یار فرخ نے ایک پریزینٹیشن دی۔ ہال میں موجود فیکلٹی اور طلبہ کے لئے یہ بڑا حیران کن امر تھا کہ پاکستان میں بزنس کو ریگولیٹ کرنے کے لئے وفاقی سطح پر 120 سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں۔ جبکہ صوبائی سطح پرلگ بھگ 20 ادارے الگ سے موجود ہیں۔ اب سوچیں اگر ایک بزنس مین سال میں ایک دن بھی ہر ادارے کو دے تو ایک سو چالیس دن وہ ان کی نذر کر دے گا۔ اور اگر دیگر چھٹیاں، ہڑتالیں، جلسے جلوس اور حکومتی پابندیاں بھی شامل کرلیں تو شاید سال کا ایک تہائی بزنس کے لئے باقی بچتا ہے۔ ان حالات میں ملک کی معیشت کا پہیہ گھومے گا اور نہ ہی کاروبار چلے گا۔ پاکستان میں کاروبار کے لئے حالات بالکل سازگار نہیں ہیں۔ پاکستان میں قائم گلوبل ریسرچ اور رائے عامہ کے جاننے کے بڑے ادارے اپسوس کے ایم ڈی بابر عبدالستار سے ملاقات میں بڑی حیران کن اور دلچسپ معلومات کا تبادلہ ہوا ۔گذشتہ دنوں پنجاب خصوصاً لاہور میں سموگ اور فضائی آلودگی وجوہات پر بحث جاری رہی۔ اس پر کئی اخبارات میں ریسرچ رپورٹس بھی شائع کی گئیں۔ گاڑیوں کا دھواں، غیر معیاری ایندھن، درختوں کی کٹائی، فصلوں کا جلانا اور صنعتی پرانی مشینری سے خارج ہونے والے کاربن سے فضائی آلودگی پھیل رہی ہے۔ لیکن اپسوس کے ایم ڈی بابر ستار سے گفتگو میں ایک نیا پہلو سامنے آیا کہ اوورلوڈنگ اور تجاوزات فضائی آلودگی میں بڑا کردار اداکر رہی ہیں۔ یہ بڑا دلچسپ اینگل تھا۔ اس کی وضاحت انھوں نے کچھ یوں کی کہ انکروچمنٹ کی وجہ سے سڑکیں اور بازار تنگ ہوجاتے ہیں۔ گاڑی، بس، ویگن،رکشہ یا بائیک نے جو سفر30 منٹ میں طے کرنا تھا وہ تقریباً دوگنا ہو جاتا ہے۔ ایکسٹرا فیول جلنے سے فضا میں شامل ہونے والے دھوئیں اور زہریلے مادوں کی تعدا دبھی دوگنی ہوجاتی ہے۔ دوسرا اوور لوڈنگ، ایک موٹر سائیکل پر چار افراد، ایک گاڑی میں چھ سات لوگ ٹھوس کر بھر لینا، جبکہ ویگنوں اور بسوں میں اوور لوڈنگ تو عام ہے۔ جب کوئی بھی گاڑی اپنی کیپیسٹی سے زیادہ وزن اٹھائے گی تو انجن زیادہ دھواں چھوڑے گا۔ یہ ایسے دو کام ہیں جس پر حکومت فوری قابوپا سکتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے بار بار اس امر کی جانب رہنمائی دی جا رہی ہے کہ ٹریفک کا نظام بہتر کریں اور گرین بسوں کا انتظام کیا جائے۔ بادی النظر میں اب حکومتی حلقے اس پر سوچ و بچار کر رہے ہیں۔ بابر صاحب کے مطابق پچھلے تین برسوں میں عام لوگوں میں موسمیاتی تبدیلیوں اور آلودگی سے متعلق بہت زیادہ آگاہی پیدا ہوئی ہے۔ عام لوگوں کو احساس ہے کہ فضائی آلودگی ان کی زندگیوں اور صحت پر کیا اثر ڈال رہی ہے۔ اب وہ بہتر معیار زندگی کے لئے خرچ کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ماحول دوست پالیسیز کے ذریعے عوامی مہم چلائے اور نئے ڈسلپن متعارف کرائے۔ ان مسلسل اور اہم ملاقاتوں میں سب سے اہم ملاقات کی اطلاع گذشتہ رات اسلام آباد میں ملی کہ
وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نوازسے چین سٹور کے وفدکی ملاقات اگلے دن 12 بجے ہو گی۔ یہاں موجود افراد کا جانا تو ممکن نہ تھا توعرفان اقبال شیخ صاحب اور اسد شفیع صاحب کی قیادت میں آرگنائزڈ ریٹیل کا نیاتشکیل کیا گیا وفد وزیرا علیٰ صاحبہ سے ملا۔ میں نے اپنے پچھلے کالم بنام وزیر اعلیٰ پنجاب میں واضح کیا تھا کہ ریٹیل کوجلدی بند کرنے سے فضائی آلودگی تو کم نہیں ہو گی لیکن معیشت کو سخت نقصان ہو رہا ہے۔ مریم نواز صاحبہ نے ریٹیل کو 10 بجے رات تک کھلے رکھنے کی اجازت دے کر ہزاروں لوگوں کا روزگار بچا لیا ہے۔ اس لئے ان کا شکریہ تو بنتا ہے۔ یہ بہتری کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہمیں دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ لندن اور بیجنگ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حکومت کو انتظامی ذہن کی بجائے شراکت داری کے اصول پر کام کرنا چاہئے۔ ماحولیاتی پالیسیز پر ریسرچ انسٹیٹیوٹس اور بزنس کمیونٹی کے اشتراک سے آگاہی مہم اورموثر انداز زندگی اپنانے کے لئے ماحول سازگار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں چین سٹور ایسوسی ایشن حکومتی معاونت کے لئے تیار ہے۔اگر ہمیں ملکی معیشت کو مستحکم اور ترقی سے ہمکنار کرنا ہے تو حکومت اور سوسائٹی کو شراکت داری کے اصول پر چلانے کی ضرورت ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.