اسد حکمرانی کا خاتمہ: شامی مسلمانوں کو مبارک

60

شامی ’’حیۃ تحریر الشام‘‘ گروپ کے رہنما ابو محمد الجولانی نے دمشق کی عظیم الشان اموی جامع مسجد میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو اسد خاندان کی تباہ کاریوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔ بشار الاسد ملک کو تباہ و برباد کرکے اور ایرانی خواہشات کی بھینٹ چڑھا کر ملک سے فرار ہو چکا ہے۔ شام میں شاید ہی کوئی ایک گھر ہوگا جو اسد کی تباہ کاریوں کا نشانہ نہیں بنا ہوگا۔‘‘ حیتہ تحریر الشام کے جنگجوئوں نے تمام سرکاری ذرائع ابلاغ بشمول ریڈیو، ٹیلی ویژن پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ وزارت دفاع سمیت تمام اہم عمارات و تنصیبات پر بھی قبضہ کر لیا ہے جبکہ ایرانی سفارتخانے کی عمارت دھماکے سے اڑا دی گئی ہے۔

شام میں 2011ء سے جو خانہ جنگی شروع تھی، ہمارے ہاں اس بارے میں بہت زیادہ تو کیا کم از کم معلومات بھی میسر نہیں تھیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ شام میں جو ہوتا رہا ہے وہ کیا ہے اور ایسا کیوں ہوتا رہا ہے۔ ویسے ہمیں تو درست طور پر اپنے یہاں پاکستان میں ہونے والے واقعات بارے بھی درست طور پر اور حتمی انداز میں کچھ پتہ نہیں ہوتا ہے چہ جائیکہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس بارے میں ہمیں پتہ ہو۔ ہمارے پاس معلومات چھن کر آتی ہے۔ اقوام مغرب کے ذرائع سے چھن کر آنے والی معلومات سچ ہوتی ہوں گی لیکن وہ ایسا سچ ہوتی ہیں جو مغرب ہمیں بتانا چاہتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے حسن البناء کی عظیم الشان تحریک ’’اخوان المسلمون‘‘ کی بڑھتی ہوئی پاپولیریٹی اور عرب نوجوانوں میں احیاء اسلام کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا کائونٹر کرنے کے لئے عرب قوم پرستی کی تحریک شروع کی گئی۔ ایک آرتھوڈوکس کرسچین دانشور استاد مائیکل افلاک نے عرب قوم پرستی کو فروغ دینے کے لئے بعث پارٹی تشکیل دی۔ 1947ء میں صلاح الدین بیطار کے ساتھ مل کر عرب سوشلسٹ بعث پارٹی تشکیل دی گئی۔ 1958ء میں شام اور مصر نے مل کر یونائیٹڈ عرب ری پبلک تشکیل دیا جس کی قیادت مصری جمال عبدالناصر کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے شامی سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی جس میں بعث پارٹی بھی شامل تھی جو اس اتحاد کی داعی تھی۔ 1961ء میں شامی فوج نے بغاوت کرکے دمشق پر قبضہ کرلیا اور دو ملکی اتحاد کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ 1963ء میں فوجی افسران نے ایک بعثی کیبنٹ تشکیل دی اور امین الحفیظ کو صدر مقرر کر دیا۔ 1966ء میں صلاح جدید کی قیادت میں بعث پارٹی کے اندر ہی انقلاب آیا اور امین الحفیظ کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔ مائیکل افلاک اور صلاح الدین بیطار کو گرفتار کر لیا گیا۔ نور الدین العطاسی صدر اور حافظ الاسد وزیر دفاع مقرر کئے گئے۔ 1971ء میں حافظ الاسد نے شامل اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اسی دن سے شامی مسلمانوں کی اکثریت مسائل میں گھڑی ہوئی ہے۔ حافظ الاسد کے اقتدار پر قبضے کے بعد عوام نے مظاہرے شروع کر دیئے کہ آئین کے مطابق صدر کا مسلمان ہونا ضروری ہے جبکہ حافظ الاسد دھریا تھا اور اس کی ساری حکومت ہی منکرین خدا پر مشتمل تھی۔ اس نے نہ صرف اس مخالف تحریک کو کچل دیا بلکہ اس آئین کا ہی خاتمہ کر دیا جو صدر سے مسلمان ہونے کا مطالبہ کرتا تھا۔

حافظ الاسد 2000ء میں اپنے انتقال تک شامی اقتدار پر غالب رہا پھر اس کے بیٹے بشار الاسد نے اقتدار سنبھال لیا جو 8دسمبر 2024ء دمشق سے فرار ہو کر ماسکو جانے تک اقتدار سے چمٹا رہا۔

بعث ازم اور اس کی بنیادوں پر قائم کی جانے والی بعث پارٹی عربوں میں سیکولرازم اور سوشلزم کے فروغ کے ذریعے اسلامی حمیت کے خاتمے کے لئے بنائی گئی تھی۔ عرب نیشنلزم کے ذریعے عربوں کو فرعونی تہذیب کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی پھر خطے کو مسلسل عدم استحکام کا شکار بنائے رکھنے کے لئے شیعہ، سنی، کرد اختلافات کو بھی تازہ دم رکھنے کا بندوبست کیا گیا۔ صدام حسین کو شیعہ اکثریتی ملک عراق پر مسلط کیا گیا۔ اس نے شیعوں کو رج کر تنگ کیا، کرد بھی اس کے خلاف شمشیر بکف رہے۔ صدام حسین خود سنی تھا لیکن اس نے اپنی حکومت بچائے رکھنے کے لئے سنی رعایا کو بھی نہیں بخشا۔ دوسری طرف سنی اکثریتی ملک شام پر ایک ایسے شیعہ خاندان ’’اسد خاندان‘‘ کو مسلط کر دیا گیا جسے اہل تشیع بھی شیعہ تسلیم نہیں کرتے۔ اس نے اپنی سنی رعایا پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے پھر 2011ء سے ملک شام خانہ جنگی کا ایسا شکار ہوا کہ ہزاروں نہیں لاکھوں انسان ہلاک و زخمی ہوئے اور لاتعداد گھرانوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ یہاں خانہ جنگی بھڑکانے میں امریکہ، روس کے علاوہ ترکی، ایران اور دیگر ممالک فریق کے طور پر شامل رہے ہیں۔ بشار الاسد کی حتمی شکست کے ساتھ ہی اسرائیل نے اسرائیل و شامی سرحدوں کے درمیان قائم بفر زون پر قبضہ کر لیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے داعش کو کسی بھی ردعمل سے روکنے کے لئے اس کے ٹھکانوں پر ایک بار پھر تواتر سے حملے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ بشار الاسد کی ماسکو فرار ہونے اور سیاسی پناہ لینے کے بعد ملک شام میں بھی بعث پارٹی کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ عراق میں پہلے ہی ایسا ہو ہو گیا تھا۔ لیکن عرب نیشنلزم یعنی بعث ازم کے فروغ نے عربوں کی اسلامی حمیت کمزور کر دی ہے۔ 26کروڑ سے زائد عربوں پر 90لاکھ اسرائیلی یہودی مسلط ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ جنگ کی بھٹی بنا ہوا ہے ہر طرف مسلمان (عربی و عجمی) مر رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں، بے گھر ہو رہے ہیں۔ صہیونی اسرائیل من مانیوں میں مصروف ہے۔ عظیم اسرائیل کے قیام کے لئے ہر لمحہ آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ غزہ میں ہزاروں فلسطینی شہید کئے جا چکے ہیں، لاکھوں مجروح ہیں، بے گھر ہیں۔ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تو دور کی بات ہے ان کے لئے تو مہاجر کیمپ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اسرائیلی حماس کو ختم کرتے کرتے فلسطینیوں کی نسل کشی پر اتر آیا ہے۔ عربوں میں حمیت ہے اور نہ ہی طاقت کہ اسرائیل کو ظلم و بربریت سے روک سکیں۔ بعث ازم اپنا آپ دکھا چکا ہے۔ عربوں نے اپنے ہاتھوں سے ان قوتوں کو کچلا، کمزور کیا جو اسرائیل کا ہاتھ روک سکتے تھے۔ تیسرے ھیکل سلیمانی کی تعمیر کے ذریعے عالمی غلبے کا خواب حقیقت بنتا نظر آ رہا ہے۔ صیہونی اپنے خوابوں کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ حماس شاید آخری رکاوٹ تھی جسے وہ پیوند خاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بشار الاسد کا خاتمہ عرب مسلمانوں کے لئے ایک اچھی خبر ہے۔ شامی مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے طویل دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

تبصرے بند ہیں.