اصل فضیلت علم کی ہے

117

بھارت نے 16نومبر 2024ء کو ایک ہائپرسانک میزائل کا تجربہ کیا۔ ہائپر سانک میزائل وہ ہے جو آواز کی رفتار سے پانچ سے پچیس گنا زیادہ رفتار پر پرواز کرسکتا ہو۔ یوں اْس کی رفتار 1.6سے 8کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ چین، روس اَور امریکہ کے بعد بھارت وہ چوتھا ملک ہے جس نے یہ ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے۔ یہ میزائل پندرہ سو کلومیٹر کے فاصلے تک مار کرسکتا ہے۔ یہ میزائل بھارت کے اِدارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) نے اَپنے ملک میں خود تیار کیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہمارا سب سے بڑا دْشمن بھارت ہے، ہمیں بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔

میرا اَندازہ ہے کہ پاکستان بھی اِس طرف قدم اْٹھائے گا۔ لیکن جو بات غور کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ہم بھارت کے پیچھے پیچھے، اْس کے کاموں کے ردعمل میں کیوں حرکت کرتے ہیں۔ بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا تو ہم نے بھی ایٹم بم بنانے کا سوچا۔ بھارت نے میزائل بنائے تو ہم بھی میزائل بنانے لگے۔ اب اْس نے ہائپرسانک میزائل بنالیا ہے تو ہم بھی اِس طرف قدم بڑھائیں گے۔ ہم خود سے کیوں نئی چیزیں نہیں بناتے؟
اِس کی وجہ جاننا بہت آسان ہے۔ بھارتی ڈی آر ڈی او وہ واحد اِدارہ نہیں ہے جو میزائل ٹیکنالوجی پر کام کرتا ہے۔ بھارت کی ہر انجینئرنگ یونی ورسٹی میں یہ کام ہوتا ہے۔ وہیں سے وہ انجینئر اَور سائنس دان نکلتے ہیں جو ڈی آر ڈی او اَور اَیسے ہی دِیگر اِداروں میں جاکر سائنسی تحقیق کے کام کرتے ہیں۔ بدنصیبی سے ہمارے ملک میں یونی ورسٹیوں کا جو حال ہے اْس نے ہمیں سائنس اَور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ پاکستان نے دفاعی صنعت میں جو بھی کارنامے سرانجام دیے ہیں اْن کا سہرا اْن اِداروں کو جاتا ہے جہاں یہ کام ہوئے۔ اْنہوں نے ہی اْن انجینئروں کو تربیت دی اَور پھر اْن سے کام لیے۔ جو سائنس دان اَور انجینئر ہماری یونی ورسٹیوں سے نکلتے ہیں وہ اِس قابل نہیں ہوتے کہ سائنسی تحقیق کا کوئی کام کرسکیں۔ اْن کی تمام تر توجہ زیادہ نمبر لینے ، ایک اچھی نوکری حاصل کرنے یا ملک سے باہر نکل جانے پر رہتی ہے۔ یونی ورسٹی میں ہمارے نوجوانوں کو یہ تربیت دی ہی نہیں جاتی کہ تحقیق کیسے کی جاتی ہے۔ کیسے نئے مسائل سوچے جاتے ہیں اَور اْن کے حل دریافت کرنے پر محنت کی جاتی ہے۔ ہماری یونی ورسٹیاں سیاست کے گڑھ بنی ہوئی ہیں۔ یہ سیاست طلبہ میں بھی ہے اَور اساتذہ میں بھی۔

طلبہ تنظیمیں اپنے اپنے منشور کے حساب سے یونی ورسٹی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں۔چنانچہ طلبہ گروپوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ہاسٹلوں پر بھی قبضے ہوتے ہیں کہ فلاں ہاسٹل فلاں تنظیم کا ہے اَور فلاں دْوسری کا۔ طلبہ کی لڑائیاں، جھگڑے عام بات ہیں۔گولیاں چلنے کے نتیجے میں کتنے ہی طلبہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کئی بری طرح زخمی ہوئے۔ اِس ساری سیاست نے ہماری تعلیم اَور ملک کو صرف نقصان ہی پہنچایا ہے۔ مجھ سے پوچھیں تو تعلیمی اِداروں میں سیاست کا کوئی عمل دخل ہونا ہی نہیں چاہیے۔ طلبہ تنظیموں نے تعلیم کا بیڑا غرق کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی طلبہ تنظیمیں بناتی ہیں اَور اْن کے رْکن پڑھائی کے علاوہ ہر چیز پر توجہ صرف کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم تعلیم کے میدان میں پیچھے ہٹتے ہٹتے اب پاتال کے کنارے پر پہنچ چکے ہیں۔ لوگ مثال دیتے ہیں کہ پاکستان بننے میں طلبہ نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ لیکن اب تو پاکستان بن گیا ہے۔ اب طلبہ کو مزید کسی سیاست میں شامل ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن لوگوں کے مفادات ہیں۔اِن مفادات کی توپ کے گولے بارود یہ طلبہ ہی ہیں۔ آج کتنے ہی طلبہ لیڈر ہماری اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔

اِسی سیاست کے نتیجے میں اساتذہ میں بھی سیاست در آئی ہے۔ وہ بھی پارٹیوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ مزید یہ کہ اْن میں اَپنی ترقیوں کے لیے بھی سیاست پر انحصار کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ اساتذہ میں مذہبی، لسانی اَور ذات پات کی تقسیم بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ گروپ در گروپ بنے ہوئے ہیں۔ پھر یہ چیز اوپر کی سطح پر بھی پہنچ گئی ہے۔ پنجاب میں یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی بھرتی کے سلسلے میں جو تماشہ لگا وہ سب کے سامنے ہے۔ وائس چانسلر کے اْمیدواروں کا انٹرویو وزیر اعلیٰ نے کیا۔ وزیر اعلیٰ کا اِس کام سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن چونکہ یہ دیکھنا مقصود تھا کہ کس کی سیاسی وابستگی کدھر ہے اِس لیے لوگوں کو میرٹ پر نہیں بلکہ اپنی پسندکے مطابق رکھا گیا۔ اگرچہ یہ کام ہمارے ملک میں ہر طرف ہوتا ہے لیکن اِس کا جو نقصان تعلیمی اِدارے کے سربراہ کے تقرر کے سلسلے میں ہوتا ہے وہ دوسری نوکریوں میں نہیں ہوتا۔ تعلیمی اِدارے کا سربراہ اگر میرٹ پر نہیں آتا تو آگے کا سارا سلسلہ ہی خراب ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تو سفارشی افراد کی بھرتی ملک کے ساتھ صریحاً غداری ہے۔ ہم ابھی تک یہ بات نہیں سمجھ سکے ہیں کہ ملک کی ترقی اور قوت سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہی پوشیدہ ہیں۔ ہم اسے معاشی اَور فوجی قوت میں تلاش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں قوتیں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہی بندھی ہیں۔ یہ بات ہمیں ستر سالوں میں سمجھ نہیں آئی۔ ابھی وقت ہے کہ ہم غور کریں اَور اَپنی سمت دْرست کرلیں۔ سب سے زیادہ محنت اَور سرمایہ کاری سائنس اور ٹیکنالوجی میں کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل برتری اور فضیلت علم کی ہے۔ دولت اَور قوت اِسی سے مشروط ہیں۔ علم میں آگے جائے بغیر ہم قیامت تک ترقی نہیں کرپائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.