بیرون ملک مقیم پاکستانی اور سول نافرمانی کی ترغیب!!!

103

وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کے ایک بیا ن کے مطابق رواں برس میں ترسیلات زر کا حجم 35 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ یہ ایک خوش آئند اطلاع ہے۔ ترسیلات زر وہ رقوم ہیں جو بیرون ملک مقیم ہمارے پاکستانی بہن بھائی اپنے وطن بھجواتے ہیں۔35 ارب ڈالر کو پاکستانی روپے میں منتقل کریں تو یہ رقم تقریبا 9 ہزار8 سو ارب روپے بنتی ہے۔ یعنی یہ بھاری بھرکم رقم ہے۔ قومی معیشت کی نازک صورتحال سے ہم سب آ گاہ ہیں۔ برسوں سے ہم عالمی مالیاتی ادارے آئی۔ ایم۔ ایف کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ آئی۔ ایم۔ ایف ہم سے اپنی شرائط منوانے کے بعد ہمیں چند ارب ڈالر کا قرض دیتا ہے۔ ایک ڈیڑھ ارب ڈالر قرض کی قسط جاری ہونے سے پہلے کئی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ اس کے بعد قرض کی قسط جاری ہوتی ہے تو ہم اسے قوم کیلئے خوش خبری گردانتے ہیں۔ اس تناظر میں ترسیلات زر کا 35 ارب ڈالر کی حد کو چھونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان پانچ ممالک میں ہوتا ہے ، جو سب سے زیادہ ترسیلات زر کے حامل ہیں ۔ہمیں سب سے زیادہ رقوم خلیجی ممالک سے وصول ہوتی ہیں۔ تاہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس ضمن میں سر فہرست ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ترسیلات زر قومی معیشت کا ایک اہم ستون ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارے سمندر پار بسنے والے پاکستانی قومی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ لازم ہے کہ حکومت بیرون ملک بسنے والوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے۔ اگرچہ یہاں اوورسیز کی وفاقی وزارت موجو د ہے ۔ صوبائی سطح پر کمیشن اور دیگر ادارے قائم ہیں۔ کسی حد تک یہ ادارے متحرک بھی ہیں۔ اس کے باوجود بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بہت سے معاملات حکومتی توجہ کے متقاضی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ترسیلات زر میں کمی واقع ہوتی ہے تو معاشی ماہرین ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کمی کا مطلب یہ ہے کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو وفاقی حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ اس کسوٹی پر پرکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ سمندر پار بسنے والے پاکستانی موجودہ حکومت اور ملکی حالات سے کسی قدر مطمئن ہیں۔ اس سارے قصے کا ایک دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کریں۔تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے ایکس اکاؤنٹ کے ذریعے عندیہ دیا ہے کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستان میں ترسیلات زر بھجوانے سے گریز کریں اور بائیکاٹ مہم چلائیں۔ عمران خان کی یہ ترغیب اور پیغام ان پاکستانیوں کیلئے ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے قومی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔اس عندیے کا مطلب یہ ہے کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستان میں رقوم بھجوانا بند کردیں ، تاکہ پاکستان کی معیشت جو اللہ اللہ کر کے تھوڑا بہت سنبھلنے لگی ہے ، وہ زمین بوس ہو جائے۔اگرچہ میں سیاست پر بات نہیں کرنا چاہتی۔ تاہم اس بیان کو پڑھنے کے بعد خیال آتا ہے کہ کیا کسی بھی شخص یا جماعت کا سیاسی مفاد اس قدر اہم ہوتا ہے کہ جس کے لئے قومی مفاد کو بالائے طاق رکھ دیا جائے؟ ہم میں سے بیشتر جانتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی کس طرح دن رات محنت کر کے یہ رقم کماتے اور پاکستان میں اپنے گھر والوں کو بھجواتے ہیں۔سمندر پار بسنے والے پاکستانیوں میں وہ طبقہ بھی شامل ہے جو ڈاکٹر، انجینئر ہے یا اس طرح کی بڑی نوکریاں کرتا ہے۔ تاہم دوسرا بڑا طبقہ ان پاکستانیوں پر مشتمل ہے جو محنت مزدوری کرتے ہیں۔ یہ مزدور پاکستانی سرد گرم موسم سے بے نیاز ہو کر، دن رات محنت کر کے رقم جمع کرتے ہیں۔ خود نہایت مشکل حالات میں رہتے ہیں ، لیکن بچت کرکے پاکستان میں مقیم اپنے خاندانوں کو رقوم بھجواتے ہیں۔ ان روپوں سے ان کے گھر والے آرام دہ زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے بچے اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ان کی بہنوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔ ان کے والدین کا علاج معالجہ ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس پیغام کا مطلب یہ ہے کہ وہ لاکھوں گھرانے جو بیرون ملک سے وصول ہونے والی رقم کے بعد نہایت سہولت سے زندگی گزارتے ہیں، وہ کسی جماعت کے سیاسی مفاد کی خاطر اس با سہولت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی جو ہماری قومی معیشت کا اہم ستون ہیں، وہ قومی معیشت میں حصہ ڈالنے کے بجائے، اس کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جائیں۔

زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ کچھ ماہ پہلے تک ہماری قومی معیشت کے یہ حالات تھے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ پاکستان کو سری لنکا سے ملایا جاتا تھا۔ ہماری کریڈٹ ریٹنگ کے تناظر میں آئی۔ایم۔ایف ہمیں قرض دینے سے گریزاں تھا۔ مہنگائی 48 سال کی بلند ترین سطح یعنی 46.65 تک جا پہنچی تھی۔ سرمایہ کاری رک گئی تھی۔قومی خزانہ خالی تھا۔ جبکہ آج معیشت کے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔پاکستان اسٹاک ایکس چینج نے 1 لاکھ 9 ہزار پوائنٹس کی حد کو عبور کرکے ریکارڈ بنایا ہے۔ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔افراط زر یعنی مہنگائی ساڑھے تین فیصد پر آ گئی ہے، جو گزشتہ 6 برسوں میں کم ترین شرح ہے۔ شرح سود میں کمی آئی ہے۔ برآمدات بلند ترین سطح پر ہیں۔ قومی ائیر لائن پی۔ آئی۔ اے پر عالمی پابندیاں ختم ہو گئی ہیں۔ ریلوے جیسا خسارے میں چلتا ادارہ نفع بخش بن گیا ہے۔ سی ۔پیک کا منصوبے پر ایک مرتبہ پھر کام شروع ہو گیا ہے۔ یقینا یہ کوئی مثالی صورتحال نہیں ہے۔ تاہم یہ اور اس جیسے دیگر مثبت اشاریے بتاتے ہیں کہ ملک میں بہتری کے امکانات نظر آنے لگے ہیں۔

ان حالات میں ایک مرتبہ پھر سول نافرمانی کی ترغیب دینا۔ سیاسی انتشار اور عدم استحکام کو ہوا دینا۔ملک کی قومی معیشت کو برباد کرنے کی منصوبہ بندی کرنا۔ یہ کس طرح کی سیاست ہے؟ یہ بھی غور کریں کہ لاکھوں ڈالر خرچ کر کے امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کے خلاف قراردادیں منظور کروانا۔ عالمی ادارے آئی۔ ایم۔ ایف کو خط لکھنا کہ پاکستان کو قرض مت دے۔ اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر پاکستان کے وزیر اعظم کے خلاف زہر اگلنا۔پاکستان کے دورے پر آئے بیلا روس کے صدر کے قافلے پر چڑھ دوڑنے کی منصوبہ بندی کرنا، یہ سب حب الوطنی کے کس تقاضے کے مطابق ہے؟ سنتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں سیاست میں اس قدر کڑواہٹ تھی کہ لوگ سیاسی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کی شادیوں میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے جنازوں میں نہیں جاتے تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے اور الزام تراشی بھی۔ لیکن ملک کے خلاف کسی نے منفی اقدامات کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ہمارے ہاں فوجی حکومتیں بھی رہی ہیں۔ ان ادوار میں وزرائے اعظم جیلوں اور قلعوں میں قید رہے۔ جلاوطن ہوتے رہے۔ پھانسی تک پر جھول گئے۔ تاہم کسی نے ملک سے باہر جا کر پاکستان پر کیچڑ نہیں اچھالا۔ اس کی معیشت کو برباد کرنے کے منصوبے نہیں باندھے۔ یہ نجانے کس طرح کی سیاست ہے۔ کس طرح کی حب الوطنی ہے۔ جس کا نشانہ ہر بار آپ کا ملک اور ملکی معیشت بنتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.