جب زمیں دھرتی کا راز کھولتی ہے

62

زلزلے زمین کی سطح پر آنے والے قدرتی مظاہر میں سے ایک ہیں، جو اپنی شدت اور اثرات کی بنیاد پر انسانی زندگی اور ماحول پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ زمین کی تہوں میں موجود توانائی کے اچانک اخراج کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ارتعاشی حرکت جو عموماً پلیٹوں کی حرکت یا آتش فشانی عمل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے۔ علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں: بعض اوقات اللہ تعالیٰ زمین کو سانس لینے کی اجازت دیتا ہے تو زمین میں بہت بڑے بڑے زلزلے بپا ہوتے ہیں، تو اس شے سے اللہ تعالیٰ کے بندوں میں خوف اور خشیتِ الٰہی اور اس کی طرف رجوع، معاصی و گناہ سے دوری، خالقِ کائنات کی جانب گریہ زاری اور اپنے کیے پر ندامت پیدا ہوتی ہے۔ تاریخ کے اوراق کا اگر جائزہ لیا جائے تو اولادِ آدم کی اس رہائش گاہ پر اب تک ہزاروں انقلابات گزر چکے ہیں اور آخری دن تک نا جانے کتنے ہیر پھیر سے یہ کائنات گزرنے والی ہے۔ ہزاروں منظر اپنے سینے میں چھپائے یہ اپنے انجام کی طرف گامزن ہے۔ دنیا بھر کے سائنس دان اور طبقات الارض کے ماہر زلزلوں، سیلابی ریلوں، سمندری طغیانی، طوفانی بارشوں اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہولناک پیشنگوئیاں کرتے آ رہے ہیں، ان کے مطابق کرہ ارض قدرتی آفات کے ایک ہولناک دورانیے میں داخل ہو چکا ہے، اسے فطرت کی ستم رانی اور زمینی ماحول کو لاحق غیر معمولی خطرات اور بربادیوں کے نا قابلِ یقین مراحل سے گزرنا ہو گا۔ انسانی ساختہ تباہ کن ہتھیاروں کے بعد سب سے وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصان کا باعث بننے والی وہ نا گہانی آفات ہیں جنہیںقدرتی آفات کہا جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آسمان سے مصائب اور بلائیں اترنے کا سبب انسان کے اپنے گناہ اور بد اعمالیاں ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’خشکی اور تری میں فساد اُن (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں، تا کہ (اللہ) انہیں بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کیے ہیں، تا کہ وہ باز آ جائیں‘۔
ربِ دو جہاں کسی بھی عذاب میں گرفتار کرنے سے پہلے غافلوں اور سرکشوں کو طرح طرح کی مصیبتوں اور رنج و الم میں مبتلا کر دیتا ہے، تا کہ وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر اپنی اصلاح کر لیں۔ خالقِ کائنات انسانوں کو اپنی معرفت و قربت اور اپنی عبادت و بندگی کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ندا دیتا ہے جس طرح انسان کا کوئی محسن اسے کسی تباہی یا مسئلے سے بچانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح بلاتشبیہ و بلا مثال وہ خالق جب اپنے بندوں کو نافرمانیوں و سرکشیوں کی صورت میں ہلاکت کے گڑھوں کی طرف بڑھتے اور عبادت و معرفت سے دور ہوتے دیکھتا ہے تو وہ انہیں کبھی پیار سے اور کبھی زجر و توبیخ کے ذریعے اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ کبھی وہ بندے پر رحمت نازل کرتا ہے تو کبھی غیض و غضب۔ یہ آفات و حوادث قربِ قیامت تک گاہے بگاہے پیش آتے رہیں گے تا کہ غفلت میں پڑے انسانوں کو عبرت و نصیحت حاصل ہو اور وہ غفلت کی زندگی اور ظلم و ستم سے باز آ جائیں۔ ارشادِ باری تعالی ہے: ’ہم تو لوگوں کو ڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں‘۔ (سورۃ الاسراء 59)۔ جب بھی ہم سے پہلی کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کا عتاب، غضب، لعنت اور عذاب نازل ہوا تو اس میں ان کے اپنے اعمال کا دخل تھا۔ کسی کا عمل کفر تھا تو کسی کا عمل روگردانی و نا فرمانی تھا۔ کسی کا عمل جھٹلانے اور انکار کرنے کا تھا تو کسی کا گناہوں کی دلدل میں لت پت ہونے کا تو کسی کا زمین میں فساد اور فتنہ پیدا کرنے کا، کسی کا وہم اور فتنے پیدا کرنے کا تو کسی کا بے حیائی پھیلانے کا، تو کسی کا ظلم کرنے کا۔ ان تمام قوموں پر عذاب، غضب، عتاب اتارے جانے کا مقصد یہی تھا کہ وہ اپنے خالق کی
طرف لوٹ آئیں اس ذات کے احکامات سے رو گردانی سے باز آ جائیں، وہ جان لیں کہ سب سے بڑی قوت کی مالک اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی اور خود بھی دکھائیں گے یہاں تک کہ ان کو ظاہر ہو جائے کہ حق یہی ہے، کیا آپ کے رب کا ہر چیز پر واقف اور آگاہ ہونا کافی نہیں‘۔ انسانوں کے معاشرے میں امن و سکون نا پید ہوتا جا رہا، بنی آدم ربِ دو جہاں کی حدود کو پامال اور اخلاقی ضابطوں کو توڑ رہے ہیں۔ اگر جائزہ لیا جائے تو آج ہمارے معاشرے میں اقوامِ سابق والی تمام برائیاں موجود ہیں۔ بد اعتقادی کی یہ کیفیت ہے کہ ستارہ پرستی سے لے کر جادو ٹونے تک انسان مختلف قسم کی توہمات میں پھنسے ہوئے ہیں، بے حیائی کا چلن عام ہے۔ کاروباری معاملات اور لین دین میں اللہ اور رسولﷺ کی تعلیمات کو پامال کیا جا رہا ہے۔ حرام مال کی خرید و فروخت اور سودی لین دین کے ذریعے فوائد حاصل کیے جا رہے ہیں۔ اگرچہ گناہگاروں کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں جہنم کا عذاب تیار کر رکھا ہے لیکن زمین پر فساد پھیلانے والے اور اللہ کی نافرمانی میں ہر حد عبور کرنے والے لوگ اکثر قدرتی آفات کی زد میں آ جاتے ہیں۔ جیسا کہ ماضی میں قوم عاد، قوم ثمود، قوم نوح، قوم لوط اور اصحاب مدین رب ذوالجلال کے غضب کا نشانہ بنے۔ قانونِ قدرت ہے کہ جب بستیاں نیک لوگوں سے خالی ہوتی ہیں، خوفِ خدا ختم ہوتا ہے، لوگ فحاشی، عریانی، شرک اور بد دیانتی جیسے گناہوں میں ڈوبے ہوتے ہے تو نظامِ قدرت انسانوں کو متنبہ کرنے کیلئے حرکت میں آتا ہے۔ رب کائنات وقتاً فوقتاً انسانوں پر ایسی آزمائش اور آفات بھیجتے رہتے ہیں جو انسانوں کو اپنی بے بسی کا احساس دلاتی ہیں۔ جن کا واحد مقصد انسانوں کو ہوش میں لانا اور احساس دلانا ہے کو اگر وہ باغیانہ طرز عمل کو ترک کر کے راہِ راست پر آ جائیں تو وہ عذابِ اکبر سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’اور ہم ضرور چکھاتے رہیں گے انہیں تھوڑا تھوڑا عذاب، بڑے عذاب سے پہلے تا کہ وہ فسق و فجور سے باز آ جائیں‘۔

تبصرے بند ہیں.