’’بابو جی دھیرے چلنا پیار میں ذرا سنبھلنا بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں‘‘ گیتا دت کے گائے ہوئے اس سدا بہار گیت کے بول جیسے ہی میرے کانوں میں پڑے مجھے لگا جیسے کسی نے میرے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو۔ میں نے نظریں اُٹھا کر اپنے سامنے دیکھا سیانی بیانی عمر کا ایک مسخرہ ٹائپ بوڑھا اپنی ’’ڈُھوڈرکاں‘‘ جیسی آواز میں ناصرف لہک لہک کر اس سدا بہار گیت کا ستیاناس کر رہا تھا بلکہ اس پر بے ڈھنگے انداز میں پرفارم بھی کر رہا تھا۔ جیسے ہی میری نظریں بابے کی نظروں سے ملیں بابے نے مجھے آنکھ مارتے ہوئے ایک زور دار قہقہ لگایا اور ارد گرد کے لوگوں کی پروا کیے بغیر فلمی انداز میں پھر سے لہکنا شروع کر دیا ’’بابو جی دھیرے چلنا، پیار میں بزرگو سنبھلنا، بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں‘‘۔ ایک تو بابے کی بے سُری آواز کے ساتھ اس کی بے ڈھنگی پرفارمنس اس پر اس نے جس لوفرانہ انداز میں آنکھ مارتے ہوئے مجھے بزرگو کہا اس نے میرے اچھے خاصے موڈ کو خراب کر دیا۔ آج میں بڑے عرصے کے بعد پارک میں اکیلا آیا تھا تاکہ فرصت کے ان لمحات میں اپنے موبائل فون پر ہیڈ فون لگا کر مزے سے اپنی جوانی میں نور جہاں، مہدی حسن، محمد رفیع، لتا، طلعت محمود، مکیش، کشور، آشا بھوسلے اور مہندر کپور کے سدا بہار فلمی گیت سُن کے خود کو فریش کر سکوں۔ پارک کے ایک دور دراز کونے میں ابھی میں بنچ پر بیٹھا ہی تھا کہ کسی آوارہ پنچھی کی طرح پتا نہیں اچانک ہی کہاں سے یہ بابا میرے پاس آن ٹپکا تھا۔ نوجوانوں کے سٹائل میں گھٹنوں سے پھٹی جین، ٹی شرٹ اور جوگرز میں ملبوس اچھلتا کودتا بابا اچھا خاصا جوکر لگ رہا تھا۔ میں نے ایک ناگواری سے بابے کی طرف دیکھا ہی تھا کہ بابے نے میری اس ناگواری کو بھانپتے ہوئے کسی بے تکلف دوست کے انداز میں میرے کندھے پر ہاتھ مارکر بنچ پر بیٹھتے ہوئے کہا ’’بزرگو! لگتا ہے تمہیں میری آواز اور میری پرفارمنس پسند نہیں آئی‘‘۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنی ناگواری کو چھپاتے ہوئے کہا ’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں‘‘۔ یہ سن کر بابے نے ایک زوردار قہقہ لگایا اور ایک بار پھر مجھے آنکھ مارتے ہوئے کہنے لگا ’’اچھا تو پھر یہ بتائو تم نے پارک کے اس دور دراز اور سب سے الگ کونے میں یہاں کسی کو ملاقات کا ٹائم شائم تو نہیں دیا ہوا‘‘۔ میں نے جھینپ کر کہا ’’بابیو! اب بھلا میں اس عمر میں کسی کو ٹائم دونگا؟‘‘۔ یہ سن کر بابے نے بجلی کی پھرتی سے میری طرف رخ کیا اور کہنے لگا ’’کیا ہوا ہے تمہاری عمر کو میری طرف دیکھو ایک کم نہ ایک زیادہ پورے بہتر سال کا ہوں اور اپنے لیے کوئی بیوہ ڈھونڈ رہا ہوں کیونکہ ابھی تو میں جوان ہوں بابے نے اپنے بے سُرے ترنم سے اب کی بار ملکہ پکھراج کی روح کو تڑپانا شروع کر دیا۔ پتا نہیں اس بار بابے کی اس بے ساختہ گائیگی میں کیا اثر تھا کہ اس دفعہ میں بابے کی بے ڈھنگی اچھل کود اور گائیگی سے بے مزا ہونے کے بجائے اس پر بے اختیار ہنسنے لگا۔ میں نے کہا ’’بابا جی! بیوہ یا بیوی؟‘‘۔ بابا ایک شوخی سے کہنے لگا ’’بزرگو! اس عمر میں بیوی اور بیوہ کا فرق ختم ہو جاتا ہے تم نے وہ شعر نہیں سنا ’’نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے‘‘۔ اب مجھے بابے کی باتوں میں دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی، میں نے بابے کو چھیڑنے کے لیے کہا ’’کچھ دیر پہلے تو آپ ابھی تو میں جوان ہوں کی گردان کر رہے تھے اور اب اپنے مرنے کی باتیں کر رہے ہیں‘‘۔ یہ سن کر بابے نے چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا ’’لاحول ولا قوۃ! میں نے اپنے مرنے کی بات تھوڑی کی ہے میں تو اس نیک بخت کی بات کر رہا ہوں جو میری سہاگن بنے گی‘‘۔ مجھے بابے کی زندہ دلی پر رشک آنے لگا کہ اس عمر اور ایسی بے چارگی میں بھی بابا ہنستے مسکراتے ہوئے پوری طرح اپنی زندگی کا لطف لے رہا تھا۔ میں نے اپنے ٹفن سے دو سینڈوچ نکال کر ایک بابے کو دیتے ہوئے کہا ’’بابا جی! آپ کے گھر بار اور بیوی بچوں کا کیا سین ہے‘‘، گھر بار اور بیوی بچوں کا سنتے ہی بابے کے چہرے پر ایک دم اداسی آ گئی۔ بابے نے ایک لمبا سانس لیا اور کہنے لگا ’’اللہ کا دیا سب کچھ ہے میرے پاس سوائے بیوی بچوں کے‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیا مطلب شادی نہیں کی یا اللہ نے اولاد نہیں دی‘‘۔ بابے نے اداسی سے خلا میں گھورتے ہوئے کہا ’’میں گریڈ بائیس کا ایک ریٹائر سرکاری افسر ہوں‘‘۔ میں نے حیرانی سے بابے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ’’پھر یہ حلیہ‘‘۔ بابے نے ایک دکھ بھری مسکراہٹ سے کہا ’’یہ بھی ایک کہانی ہے‘‘۔ میں نے کہا ’’اگر آپ نا مناسب نہ سمجھیں تو اپنی یہ کہانی مجھے بھی سنا دیں‘‘۔ بابے نے ایک لمحے کے لیے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ’’اللہ نے مجھے نیک خصلت بیوی، تین پیارے بچے، کار کوٹھی اور روپیہ پیسہ سب کچھ دیا تھا۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے میرے ارد گرد نوکروں اور ماتحتوں کی ایک پوری فوج تھی جو میرے ایک اشارے کی منتظر رہتی۔ میرے رعب اور دبدبے کا یہ عالم تھا لوگ میرے سامنے سر اٹھا کر تو ایک طرف سر جھکا کر بھی بات نہیں کر سکتے تھے۔ دراصل میں اصول و ضوابط کا پابند ایک ایسا شخص ہوں جس نے اپنی ساری عمر ڈسپلن میں گزاری ہے۔ میں نے اپنی ملازمت کے دوران دفتر کے ساتھ اپنے گھر میں بھی اس ڈسپلن کو سختی سے قائم رکھا ہوا تھا گھر میں میری موجودگی میں نوکر چاکر تو ایک طرف میرے بیوی بچوں کو بھی یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ اونچی آواز میں بات کر سکیں۔ پھر جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے گئے وہ اور اُن کی ماں مجھ سے دور ہوتے گئے یہاں تک کہ انہوں نے میرے سخت رویے کی وجہ سے مجھ سے ہمیشہ کے لیے علیحدگی اختیار کر لی اور میرے پرانے یار دوست اور کولیگ بھی مجھ سے کنارہ کشی کر گئے ہیں۔ اب میں اپنے ایک پرانے نوکر کے ساتھ اپنی کوٹھی میں اکیلا رہتا ہوں۔ جب کبھی تنہائی سے بہت زیادہ گھبرا جاتا ہوں تو جوکروں جیسا حلیہ بنا کر اپنے آپ کو ہلکا پھلکا کرنے اور چند خوشیوں کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں‘‘۔ میں نے پوچھا ’’آپ نے کبھی اپنے بیوی بچوں کو منانے کی کوشش نہیں کی‘‘۔ بابے نے کہا ’’میں نے انہیں منانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن ہمارے درمیان یہ دوری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اسے ختم کرنا اب مشکل ہی نہیں شاید ناممکن بھی ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے بابے کی آنکھوں میں گہرے دکھ اور ملال کے موٹے موٹے آنسو تیرنے لگے جنہیں روکنے کی پوری کوشش کے باوجود وہ روک نہیں پا رہا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے آنسوئوں سے تر ہوتے ہوئے اپنے چہرے کو پونچھتے ہوئے نم آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور زبردستی مسکراتے ہوئے پھر سے اپنی بے سُری آواز میں گانے لگا ’’بابو جی دھیرے چلنا پیار میں ذرا سنبھلنا، بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں‘‘۔
تبصرے بند ہیں.