بلوچستان ہمیشہ حکومت کی اولین ترجیح رہا ہے اور بلوچ عوام کے حقیقی تحفظات کو دور کرنے کے لیے ہر موقع پر مخلصانہ کوششیں کی گئی ہیں۔ بلوچستان کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے گئے، بلوچستان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جا رہا ہے، صوبے کے 30 ہزار ہنر مند نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی غرض سے بیرون ممالک بھجوانے کے اقدامات کا آغاز کیا جا چکا۔ اس حوالے سے جرمنی، رومانیہ اور سعودی عرب سے معاملات طے پا گئے ہیں۔ آج بلوچستان پسماندگی سے نکل کر خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا۔ ریاست کی جانب سے بلوچستان کے ایران سے متصل اضلاع کے علاقوں کے غریب عوام کو روزگار کے حوالے سے تیل کا کاروبار کرنے کے لیے باقاعدہ اجازت دی گئی ہے۔ (ضلعی انتظامیہ کی طرف سے تیل کے کاروبار سے منسلک افراد کے لیے ٹوکن سسٹم قائم کیا گیا) جس کا مقصد ہے کہ غریبوں کے گھروں کا چولہا جلتا رہے، اور وہ باعزت طریقے سے اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں، مگر سمگلرز ٹوکن کے بغیر تیل کا غیر قانونی طریقے سے کاروبار کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک کو بھاری معاشی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اس کاروبار سے منسلک افراد کی پروفائلنگ کی جا رہی ہے، جو کہ اس وقت بہت ضروری ہو چکی ہے۔ مگر اس پر ملک دشمن عناصر کا ریاست کے خلاف منفی پراپیگنڈا جاری ہے جو سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ پروفائلنگ کا مقصد تیل کی سمگلنگ کو روکنا ہے، کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق ایرانی تیل کی سمگلنگ کے نتیجے میں قومی خزانے کو اربوں روپے کا سالانہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ تیل کی سمگلنگ میں دہشت گرد تنظیمیں براہ راست ملوث ہیں کیونکہ ان کو اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے بھاری مالی وسائل درکار ہوتے ہیں جن کے حصول کے لیے یہ اس طرح کے جرائم کو انجام دیتی ہیں، سمگلنگ سے حاصل ہونے والا پیسہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں پر استعمال کیا جاتا ہے، دہشت گرد تنظیمیں اس رقم کا ایک بڑا حصہ اپنے سہولت کاروں کے ذریعے کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے لیے خرچ کرتی ہیں، اسی پیسے سے ہتھیار اور بارودی مواد خریدا جاتا ہے، دھرنے دئیے جاتے ہیں، احتجاج کیے جاتے ہیں۔ ملک دشمن عناصر ایک طرف بلوچستان کی پسماندگی کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کی ترقی کی راہ میں مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ ریاست غریب عوام کو تیل کے کاروبار کے حوالے سے ریلیف فراہم کر رہی ہے مگر سمگلر اس ریاستی نرمی اور ہمدردری کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تیل سے وابستہ افراد کو ریلیف پہنچانے اور ایران سے تیل لانے کے لیے ٹوکن سسٹم کا اجرا کیا گیا۔ کیبن گاڑیوں کو ٹوکن جاری کیے جاتے ہیں تاکہ وہ روزانہ ایک مجاز مقدار میں پیٹرول کے ساتھ سرحد پار کریں۔ پہلے ٹوکن کے بغیر ہر کوئی اپنی مرضی سے سرحد پر جا کر ایرانی ساختہ زمیاد گاڑیوں میں تیل لاسکتا تھا، جس کا سمگلروں نے خوب فائدہ اٹھایا، اس سے مقامی افراد جن کو ریاست کی طرف سے اس کاروبار کو کرنے کی اجازت دی گئی، ان کو معاشی طور پر نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے بعد سرحد پر آہنی باڑ لگائی گئی اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کر کے ٹوکن نظام نافذ کیا گیا۔ اب بلوچستان میں تیل کے کاروبار کو منظم کرنے کے لیے ٹوکن سسٹم پر عمل کیا جا رہا ہے۔ ٹوکن سسٹم کی نگرانی ضلعی انتظامیہ کرتی ہے۔ وہ ایک فہرست فراہم کرتی ہے جس میں اس کاروبار سے وابستہ افراد، ٹوکن ہولڈر کا شناختی کارڈ نمبر، ’زمیاد‘ گاڑی کا انجن نمبر، چیسی نمبر، رجسٹریشن نمبر، پتہ، بارکوڈ نمبر اور ڈرائیور کا نام شامل ہوتا ہے، اب پروفائلنگ میں بھی انہی چیزوں کو دیکھا جا رہا ہے تاکہ ریاست کی طرف سے ملنے والی اس اجازت کا غلط استعمال نہ کیا جا سکے۔ یہ نظام سرحدی اضلاع کے رہائشیوں کو ایرانی تیل درآمد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ زمیاد گاڑیوں کے ٹوکن کی تقسیم مختلف اضلاع میں مختلف ہوتی ہے۔ ہر ضلع میں ٹوکن یونین کونسلوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور ان کا حجم یونین کونسلوں کی آبادی پر مبنی ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ گاڑیاں یا ان کی رجسٹریشن مقامی ڈرائیوروں کی ہوتی ہے لیکن اس میں دہشت گرد اور سمگلرز ایسی درجنوں گاڑیوں کے مالک ہوتے ہیں جبکہ ان میں سے زیادہ تر ڈیزل بردار گاڑیاں غریب مقامی لوگوں کی نہیں ہیں۔ تربت اور پنجگور دونوں میں رجسٹرڈ زمیاد گاڑیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جبکہ سالانہ اربوں روپے مختلف طریقوں سے ایرانی تیل ڈیلرز کو ادا کیے جاتے ہیں۔ ان سب حالات واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضلعی انتظامیہ نے قانون کے مطابق پروفائلنگ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ تاکہ تیل کی سمگلنگ کو روکا جا سکے، کیونکہ سمگلنگ معاشی اقتصادیات کیلئے کسی ناسور سے کم نہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کو ممکن بناتی ہے جس سے معاشرے میں جرائم بڑھتے ہیں۔ جس کا ثبوت موسیٰ خیل قومی شاہراہ پر 23، پنجگور میں 6 پنجابی مزدوروں کا، گوادر میں 7 حجاموں کا جبکہ دکی میں 21 بے گناہ کان کنوں کا قتل ہے۔ شواہد سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں دہشت گرد تنظیمیں شامل ہیں اور یہی دہشت گرد تنظیمیں تیل اور دیگر کی سمگلنگ میں ملوث ہیں، جب ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے تو یہ ریاست کے خلاف منفی پراپیگنڈا اور الزام تراشی شروع کر دیتی ہیں۔ دہشت گردوں اور سمگلروں کے بہکاوے میں آنے والے تیل کے کاروبار سے منسلک افراد کو یہ نہیں علم کہ پروفائلنگ سے ان کے کاروبار کو نقصان نہیں ہو گا بلکہ کاروبار کرنے کیلئے منظم طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ سمگلر روزانہ کی بنیاد میں لاکھوں لیٹر ایرانی تیل چاغی، واشک، پنجگور کیچ کے پانچ زمینی اور گوادر کے ایک سمندری راستے سے سمگل کرتے ہیں، ادائیگیوں کیلئے حوالہ ہنڈی کا استعمال ہوتا ہے۔ جن کا فائدہ صرف ان کو حاصل ہوتا ہے مگر مسائل اور مہنگائی کا سامنا پوری قوم کو کرنا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں تیل کی سمگلنگ کیلئے مشہور زیادہ تر ایران کے ساتھ ملحقہ سرحدی علاقے ہیں، جہاں غیر قانونی طریقے سے ایرانی تیل کو پاکستان کے مختلف علاقوں تک پہنچایا جاتا ہے اور یہ کام ملک دشمن عناصر کرتے ہیں جن کا مقصد بلوچستان کی محرومیوں کا رونا رو کر نوجوان نسل کو گمراہ کر کے دہشت گرد بنانا ہے، پروفائلنگ کے حوالے سے ریاست پر یہ الزام کہ ان سے ان کا روزگار چھینا جا رہا ہے سراسر من گھڑت اور بے بنیاد ہے، ریاست تو ان کو کاروبار کی اجازت دے رہی ہے وہ بھی منظم طریقے سے پھر یہ چیخ و پکار کیوں؟
تبصرے بند ہیں.