رشتوں میں بندھی عورت کہانی

115

دیکھا جائے تو دنیا کو خوبصورت بنانے میں مرد اور عورت دونوں کا بڑا کردار اور زندگی کی تمام کہانی انہی کے اردگرد گھومتی ہے۔ انہی سے نسلوں کی آبیاری ہوئی اور انہی سے نسلیں پروان چڑھتی ہیں، انہی گھروں سے لے کر دنیا تک کے نظام چلتے ہیں۔ جس طرح ایک عورت دنیا میں جنم لیتی ہے اس کے ساتھ ہی وہ بچپن سے لے کر مرتے دم تک کئی رشتوں ناطوں میں بندھ جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں میری ایک دوست نے مجھے چائے پر بلایا۔ نام ہے اس کا ’’حنا‘‘۔ کہیں آپ حنا پرویز نہ سمجھ لیں۔ یہ جس حنا کا میں ذکر کرنے جا رہا ہوں ایک سرکاری جاب کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کی بڑی شوقین ہے۔ ذرا سوچیں کوئی خاتون آج کے گھٹن زدہ دور میں چائے کی دعوت دے تو پھر دل نے باغ باغ تو ہونا ہے لہٰذا حنا کی دعوت کے اگلے روز ایک بڑے ریسٹوران میں میں اور وہ دونوں آمنے سامنے تھے۔ باتوں کے دوران اس نے مجھے اپنے فون پر ایک پوسٹ دکھاتے ہوئے کہا… اس پوسٹ میں عورت کو کس قدر کمزور تحریر میں لا کر غلط پیغام دیا جا رہا ہے۔ پوسٹ میں لکھا تھا… ’’دنیا میں سب سے کچا رشتہ عورت کا ہوتا ہے‘‘ بس پھر کیا تھا حنا نے ایک جذباتی انداز میں لیکچر دے ڈالا… اس خیال میں جب ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کی بیس پچیس سالہ لڑکے سے شادی ہوتی ہے تو اگلے ہی دن لڑکی بیوی ، بھابھی ، چاچی ، مامی ، تائی اور سب سے بہترین رشتہ بہو بیٹی میں بندھ جاتی ہے ، پھر سال ڈیڑھ سال کے بعد ماں کے رتبے کو بھی حاصل کر کے اپنی زندگی تیاگ دیتی ہے لیکن! شادی کے بعد لڑکا مرد کی حیثیت کے دائرہ میں آجاتا ہے یعنی ’’داماد‘‘ اور شوہر ، جس کے اختیار میں ایک لڑکی آچکی ہے اور وہ جیسے چاہے اس سے اچھا یا برا سلوک کرے اور وہ اپنی عمر سے چھ آٹھ سال آگے بڑھ جاتی ہے اور انیس سال میں ماں بن کے اچانک تیس چالیس سال کی تجربہ کار عورت میں ڈھل جاتی ہے جو رات بچوں کے ساتھ ، تو دن میں شوہر کے خاندان کو ہر رشتے کے حساب سے ملتی اور شوہر کے بدلتے موڈ کو بھی مدِنظر رکھ کے اپنی عزت بچاتی رہتی ہے۔ پھر جیسے ہی اس کے بچے اسکول جانے کے قابل ہوتے ہیں تو وہ چوبیس پچیس سال کی عورت صرف ایک ’’کان‘‘ بن جاتی ہے جس میں بچوں کے سکول ، ٹیوشن ، قاری صاحب ، گھریلو سے خاندانی تقریبات یا میاں کی کاروباری ٹیشن ، آفس کے مسائل ، خاندانی سیاست کی کہانیاں اس کی زندگی میں امنڈ آتی ہیں۔ اس کے ساتھ وہ سسرالی رشتے داروں کی تنی ہوئی رسی پہ چلنا بھی اولین فرض سمجھتی ہے۔ وہ اٹھارہ سال کی لڑکی جو اپنی بے فکری کی زندگی جی چکی یعنی پورے اٹھارہ سال جس میں سے چودہ سال اگرسکول کالج کے نکال دیں تو اس نے اپنی شاندار زندگی پیدائش سے چار سال کی عمر تک بھرپور جی لی ہوتی ہے۔ اس دوران وہ ایک بہترین کک ، ماسی ، برتن دھونے والی، بچوں کی آیا، نرس ، ڈاکٹر، ڈرائیور، گھر کی چوکیدار، کیشئر، بجٹ بنانے والی، بینک، دھوبن، پریس کرنے والی، ٹیلر، اْستانی، کونسلنگ کرنے، الارم اور سب سے بڑھ کے وہ صرف ایک ’’کان‘‘ جہاں زمانے بھر کی باتیں جاتی ہیں اور کوئی نہیں سوچتا شادی سے پہلے جو لڑکی گھومنے کی شوقین ، کھانے پینے کی رسیا ، پڑھنے کی لت میں مبتلا ، خوشبوؤں میں بسنے، میٹھا بولنے اور دھیما چلنے والی کہاں گم ہو جاتی ہے؟وہ کیوں زبان کی تلخ ، کپڑے لتے سے بے فکر ، جو ملا کھا لیا ، ہر وقت جلدی میں کیوں رہتی ہے۔
کیا وہ شادی سے پہلے کوئی ٹریننگ حاصل کرتی ہے بچے پالنے اور پیدا کرنے کی؟
کیا وہ شادی ان ساری ذمہ داریوں کو لینے کے لئے کرتی ہے؟
کیا وہ شادی گھر کے کاموں کے لئے کرتی ہے ؟
کیا وہ شوہر کے اشاروں پہ چلنے کے لئے اپنے ماں باپ چھوڑتی ہے ؟
کیا وہ سسرالی رشتے داروں کے طعنے سننے کے لئے شادی کرتی ہے؟
کیا وہ ڈھیر جہیز لانے کے لئے شادی کرتی ہے؟
اگر شوہر بعد میں جھگڑے یا مارے تو اپنے ماں باپ سے مدد کیلئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے اگر نہیں تو وہ بھی صرف چاہے جانے ، سراہنے ، ناز ونخرے اٹھوانے کے لئے شادی کرتی ہے۔
جب لڑکا ایک دن کے بچے ، کو اٹھانے سے ڈرتا ہے تو یقین جانیں لڑکی بھی یہی خوف رکھتی ہے پھر جب لڑکا اپنے سسرال میں جاکے ’’ایزی‘‘ نہیں ہوتا تو یہ بھی یقین رکھیں کہ وہ انجان لڑکی یہی لمحات لئے ایک قیامت سے گزرتے ہوئے پورے سسرال کے مزاج کو سمجھنے میں گزارتی ہے۔ دوسری طرف جب ایک لڑکا اپنی معاشی ذمہ داریوں سے گھبرا جاتا ہے تو یقین مانئے لڑکی بھی ایک جیسی روٹین ، گھر کے کاموں کی ذمہ داریوں سے دب سی جاتی ہے۔جب وہ لڑکا بچوں کی تعداد یا ان کے سکول کالج کی فیس سے ٹینشن میں آتا ہے تو ایسا کیسے ممکن ہے وہ لڑکی جو چوبیس گھنٹے گھر میں رہتے ہوئے وہ ٹیشن نہ برداشت کرے تو کہاں جائے۔ یہی لڑکا اتوار کو دن چڑھے سوتا ہے تو لڑکی کا دل نہیں کرتا کہ اسے بھی ایک دن کی چھٹی مل جائے کچن سے؟ اور یہی لڑکا اتوار کے دن دوستوں میں جا سکتا ہے تو اس لڑکی کا دل پتھر کا تو نہیں جو شادی کے بعد پچھلے سارے رشتے ناطے تیاگ ڈالے لہٰذا بات صرف احساس کی ہے۔
اور آخری بات…
مجھے اپنی دوست حنا کی باتوں سے سو فیصد اتفاق ہے کہ ہم ایک ہی ماحول سے جڑے لوگ ہیں اور حنا کی تمام باتوں میں جہاں بہت وزن تو وہاں ہمیں بھی احساس ہے کہ ایک عورت کتنے بندھنوں میں بندھ کر ایک نظام کا حصہ بنتی ہے۔ وہ نظام رشتوں کا ہو… گھر کا ہو… آفس کا ہو… عورت ہر رشتے میں واجب احترام اور واجب قدر ہے… بات صرف عورت کو سمجھنے کی ہے جو سمجھ گیا وہ پار جو نہ سمجھا … وہ بھی سمجھ جاتا ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا…

تبصرے بند ہیں.