راستہ وہی‘راہی بدلنے والے ہیں

94

ہمارے ارباب اختیار اپنی انا کے حصار سے باہر نہیں آرہے ان کی سوچ کا دائرہ سمٹتا جا رہا ہے جو مسائل و نفرت کو جنم دے رہا ہے بلکہ دے چکا ہے مگر اس امر کا احساس انہیں بالکل نہیں۔یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ آخر یہ بڑے کیا چاہ رہے ہیں انہیں کیوں یہ علم نہیں کہ ان کے اقدامات سے کوئی نسیم صبح نہیں چلنے والی لہٰذا وہ سوچیں غور کریں اگر ان میں عوام کیلئے رتی بھر بھی محبت ہے مگر تیزی سے تبدیل ہوتی صورت حال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے اسیر ہیں عوامی مفاد انہیں عزیز نہیں۔ ویسے بھی وہ عوام کو انسان نہیں سمجھتے لہٰذا ان کے مطابق انہیں کیا معلوم کہ زندگی کیا ہے اور اس کے لوازمات کیا ہیں یہ تو وہی ( حکمران ) ہی جانتے ہیں اسی لئے عام لوگ اقتدار میں آسکتے ہیں نہ ہی وہ جدید وقدیم آسائشیں حاصل کرسکتے ہیں ان کی غیر عوامی سوچ نے سماج کو واضح طور سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ان کے مابین ایک لکیر کھینچتی چلی جا رہی ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ گہری ہوتی جا رہی ہے اس صورت میں کیا ترقی ہو گی کیسے مسائل حل ہوں گے لہٰذا عوامی شعور تقاضا کر رہا ہے کہ اختیارات ان کے حقیقی نمائندوں کے پاس ہونے چاہیں کیونکہ روایتی نمائندے ان کی مشکلات سے نجات دلانے میں ناکام رہے ہیں انہوں نے اپنے پیٹ تو بھر لئے مگر عوام کا پیٹ خالی رہنے دیا۔ اب غریبوں کے گھروں میں بھوک بیماری رقصاں ہے۔روزگار چھن جانے کا اندیشہ ہر پل انہیں خوف میں مبتلا کر رہا ہے لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ دولت کی تقسیم کو منصفانہ بناؤ۔جنہوں نے ملکی سرمایے کو ہتھیایا ہے وہ واپس خزانہ میں لائیں تاکہ چمن میں رونق آسکے اور فاختائیں امن کے گیت گا سکیں مگر اس کے لئے دل گردہ چاہیے جو ہمارے اقتدار یوں میں موجود نہیں وہ کسی سے کچھ لے تو سکتے ہیں دے کچھ نہیں سکتے مگر انہیں یہ بات ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ ملک عزیز میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمیشہ نہیں رہے گا دن بدلتے رہتے ہیں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں لہٰذا اہل اقتدار کو اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی چاہیے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ یہ سلوک کسی طور بھی جائز نہیں۔

وہ آئینی حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج کے راستے پر آتے ہیں تو ان سے گفتگو کی جائے ان کی ہڈی پسلی ایک کیوں ہو لہٰذا ڈی چوک میں جو ہوا وہ غلط تھا مہذب ملکوں میں احتجاج ہوتا ہے تو سڑکیں احتجاجیوں سے بھر جاتی ہیں مگر ان پر پولیس ٹوٹ نہیں پڑتی ان کے مطالبات سْنے جاتے ہیں ان پر جہاں تک ممکن ہو عمل در آمد بھی کیا جاتا ہے ۔
چلئے اگر کوئی احتجاج حکومت کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے تو وہ اس کے محرکات پر کیوں غور نہیں کرتی۔سیاسی احتجاج کو چھوڑئیے یہ جو ملازمین احتجاج کرتے ہیں یا دھرنے دیتے ہیں وہ تو غیر سیاسی ہوتے ہیں ان پر بھی کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور انہیں طاقت کا استعمال کرکے منتشر کیا جاتا ہے اس عمل و مشق سے مایوسی اور نفرت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اگر سول نافرمانی کی تحریک چل پڑتی ہے توکیا ہمارا ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ اْدھر گمبھیر مسائل نے عام آدمی کو دن میں تارے دکھلا دئیے ہیں اس لئے اگر آج عام انتخابات ہوتے ہیں تو حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بد ترین شکست ہو گی انہیں اس بارے ضرور علم ہو گا مگر وہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور غریب عوام کے دْکھوں کو محسوس نہیں کر رہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں اقتدار سے غرض ہے ملک کے لوگوں سے نہیں ۔

دیکھ لیجئے پی پی پی کے سر براہ بلاول بھٹو زرداری وزارتِ عظمیٰ کے لئے اِدھر اْدھر بھاگے پھر رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن پر تنقید کرنے لگے ہیں اور موجودہ صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر وہ وزیراعظم بن جاتے ہیں تو ان کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ ہے کہ جس سے وہ ملک میں جاری معاشی سیاسی اور سماجی بحرانوں پر قابو پالیں گے۔ انہیں قرضے اتارنے کے لئے جو خطیر رقم درکار ہو گی اسے وہ کہاں سے لائیں گے ؟ ہاں البتہ اگر وہ اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ کسی حد تک صورتحال بہتر ہو سکتی ہے مگر جنہوں نے دولت اکٹھی کرنے کیلئے پاپڑ پیلے ہوں اور کئی ہیرا پھیریاں کی ہوں وہ اس دولت کو کیسے عوام پر نچھاور کریں گے ؟۔

بہرحال ان حکمران جماعتوں سے معیشت سنبھلی ہے نہ سیاسی حالات پر قابو پایا جا سکا ہے لہٰذا ان کی مقبولیت جو پہلے بھی کم تھی اب مزید کم ہو گئی ہے لہٰذا وہ دھکے شاہی سے مقبول ہونے کی کوشش نہ کریں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ عوام پی ٹی آئی کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں جس کا واضح اظہار وہ آٹھ فروری کو کر چکے ہیں مگر اختیارات کا قلمدان جن کے پاس ہے وہ طاقت کے زعم میں ہیں جس کا دور گزر گیا پوری دنیا میں عوام کی طاقت کو تسلیم کر لیا گیا ہے جنوبی کوریا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ چند گھنٹوں کے مارشل لا کو عوام نے مسترد کر دیا۔امریکا کو دیکھ لیجئے ٹرمپ کو پہلے سے کہیں زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد آمرانہ طرز عمل سے نظام معیشت و سیاست کا چلانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے وہ زمانہ اور تھا اب اور ہے اس میں خلوص محبت اور کارکردگی دکھانا ہوں گے تب جا کر حکمرانی ہو سکے گی مگر اس میں من مرضی نہیں چلے گی کہ بیدار عوام اپنا حق مانگنے لگے ہیں ان کو اب خاموش کرنا بیحد مشکل ہو چکا ہے۔وہ موجودہ نظام سے تنگ آچکے ہیں کہ یہ ان کا استحصال کرتا ہے ان کی آزادیاں سلب کرتا ہے اور انہیں ایوانوں سے دْور رکھتا ہے لہٰذا لاکھ جتن کیے جائیں انہیں آگے بڑھنے سے روکنے اور اپنے حقوق سے محروم کرنے کے اس میں کامیابی نہیں ہو گی وہ اپنی منزل کی جانب چل پڑے ہیں جس کی طرف جانے والے راستہ پر چھائی دھند چھٹنے لگی ہے !۔

تبصرے بند ہیں.