پاکستان میں سیاسی شکار کرنے کے لیے شکاری تیار ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کچھ اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر اس وقت حکمران ہیں لیکن پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ ہم حکومت میں شامل نہیں ہیں لیکن جب بھی مسلم لیگ ن کی حکومت کو یہ شبہ بھی ہوتا ہے کہ تحریک انصاف ہمیں نہ لے ڈوبے فوراً پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دوسری قیادت جس طرح مسلم لیگ ن کے وزرا اپنی توپوں کا رخ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کرتے ہیں ان سے بڑھ کر پاکستان پیپلز پارٹی حکمران جماعت کا ساتھ دیتی ہے لیکن جب بھی پیپلز پارٹی کی قیادت اور ان کے رہنماؤں سے بات کی جائے کہ آپ حکومت میں ہیں تو فوراً سر ہلا دیتے ہیں۔ ہمارا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ہمارے پاس تو آئینی عہدے ہیں لیکن اب جس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے مل کر حکومت بنائی تھی تو اندرون خانہ حکومت بنا کے دینے والوں نے ان دونوں جماعتوں کے درمیان انڈر سٹینڈنگ پیدا کی کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پانچ سالوں میں حکمران رہیں گے اور جب پیپلز پارٹی یہ محسوس کرے گی کہ میاں شہباز شریف ڈلیور کرنے میں ناکام ہو گئی ہے تو حکومت کی باگ ڈور بلاول بھٹو زرداری سنبھال لیں گے جب کہ پیپلز پارٹی نے اپنے آپ کو سیاست کا گرو سمجھتے ہوئے صدر چیئرمین سینٹ گورنر خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ گورنر پنجاب سندھ اور بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کے مراتب پر قبضہ کر لیا اور ہر سطح پر مسلم لیگ ن کو پنجاب میں اپنی قوت بڑھانے کے لیے سیاسی طور پر زد و کوب کرتے رہے کیونکہ پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ جب تک پنجاب میں ہماری حکومت نہیں ہوگی مرکز میں بھی ہم کامیاب نہیں ہو سکتے تو میرے دانست میں اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہوا چل نکلی ہے کہ قومی حکومت بنائی جائے سینیٹر فیصل واوڈا اور پیپلز پارٹی کے رہنما اس کاڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکام ہوئی ہے قومی حکومت کی بات کر کے ساتھ ہی جمعیت علما اسلام کو اپنا ساتھی بنانے کے لیے بلاول بھٹو زرداری نے سب سے پہلے ملاقات مولانا فضل الرحمان سے کی ہے اور اندرون خانہ جو بات چیت ہوئی ہے اس میں یہ شامل ہے کہ مدارس کے بارے میں جو ترمیم 26 ویں ترمیم کے ذریعے پاس کی گئی تھی اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بلاول بھٹو زرداری اہم کردار ادا کریں گے لیکن مولانا فضل الرحمن جو کہ اپنے آپ کو سیاست کا گرو سمجھتے ہیں وہ قومی اسمبلی میں آٹھ اور سینٹ میں پانچ سیٹوں کے باوجود جیسے 26 ویں ترمیم میں فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کا رول ادا کر رہے تھے کہ وزیراعظم صدر ایم کیو ایم مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کی قیادت دن رات 26 ویں ترمیم کے سلسلے میں ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کے گھر کے چکر کاٹتی تھی لیکن مولانا فضل الرحمان نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی تھیں انہوں نے وقت آنے پر تحریک انصاف کا کندھا استعمال کرتے ہوئے اپنا وزن بڑھایا اور وہ شہباز شریف کی جھولی میں ڈال کر 26 ویں ترمیم کے پاس کرانے میں سرخیل بن گئے اب اسی طرح بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے کے لیے مولانا فضل الرحمان نے بلاول بھٹو سے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں پاکستان تحریک انصاف کو آپ کی وزارت عظمیٰ کے لیے قائل کر لوں گا جبکہ پاکستان مسلم لیگ بھی اب آپ کو اپنی بھرپور حمایت کے ساتھ جیسے کہ آپ نے مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا ہے وہ ساتھ دے گی اور آصف علی زرداری کا خواب کہ میرا بیٹا میری زندگی میں وزیراعظم پاکستان بن جائے شرمندہ تعبیر کرنے میں مولانا فضل الرحمن اہم کردار ادا کریں گے جبکہ ایک طرف یہ بھی کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان کی طرف سے 26ویں ترمیم میں مدرسوں کا جو بل ہے اس کو پاس کرنے سے انکار کر دیا ہے اور بلاول بھٹو کے کہنے پر بھی اس بل پر دستخط نہیں کیے یہ بھی ایک چال ہے اب میں یہاں جو منظر دیکھ رہا ہوں اور میرا 45 سالہ صحافتی تجربہ یہ کہتا ہے کہ تحریک انصاف کسی صورت میں بھی اس اسمبلی میں بلاول بھٹو کو وزیراعظم نہیں بننے دے گی کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے یہ قوم سے وعدہ کر رکھا ہے کہ میں چوروں ڈاکوؤں لٹیروں شریفوں اور زرداریوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر حکومت میں نہیں آؤں گا بلکہ ہر جگہ ان کا مقابلہ کر کے ان کو شکست دوں گا تو یہ وہ نعرہ ہے جو موجودہ حکمرانوں کو خوف دلا کر رکھتا ہے اور وہ نہ چاہنے کے باوجود بھی ایک دوسرے کے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں وہ کسی صورت میں بھی ان حکمرانوں سے کسی قسم کی کوئی سودے بازی نہیں کریں گے اور اپنے شہدا کا بدلہ لینے کے لیے ان کو سیاسی موت ماریں گے اور مولانا فضل الرحمن کو 26 ویں ترمیم کی طرح اس سلسلے میں ہیرو بننے کا موقع نہیں دیں گے اور بلاول بھٹو زرداری کا وزیراعظم بننے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا کیونکہ آصف علی زرداری جن کا دعویٰ ہے کہ میں سیاست کا کھلاڑی ہوں اور ایک ہی وقت میں صدر پاکستان اور وزیراعظم کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینٹ کا عہدہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس رکھ کر یہ ریکارڈ قائم کروں گا کہ اگر میاں نواز شریف وزیراعظم اور میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں تو میرا بیٹا صدر ہوتے ہوئے وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتا۔
تبصرے بند ہیں.