گراں ہو گئی حیات…..

87

برق رفتار مواصلاتی ذرائع کے ہاتھوںدنیا سمٹ گئی ہے۔ اس عالمی گاؤں میں ہرملک ایک بڑا خاندان ہے جسکی کھڑکیاں دروازے چہار جانب کھلتے ہیں۔ غزہ کے دھماکے، دھواں، چیخ و پکار، ملبے باہر تک پوری دنیا دیکھ سن سکتی ہے۔ ۔ پاکستان میں عجب تماشے آئے روز برپا رہتے ہیں۔ بعض بد تہذیب بچے کھڑکیاں کھول کر باہر آوازیں دیتے، چیختے چلاتے، دوسروں کو دخل اندازی پر اکساتے ہیں۔ دھرنا در دھرنا چلتے چلتے فائنل کال تک بات آن پہنچی۔ اس مرتبہ دھرنے میں خواتین کی کار فرمائی سے نند، بھاوج قضیہ اضافی تھا۔ سر پر کفن باندھنے سے لے کر کامیابی کا سہرا بندھنے تک کے تذکرے تھے۔ اب خواتین کے سر،سہرا چونکہ بندھ نہیں سکتا تو بد شگونی تو ہو چکی۔قائد کو حتماً رہا کروانے کے عزم سے شروع ہونے والے دھرنے میں بہت سے خود گرفتار ہو گئے اور قیادت خوف سے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگی۔ سب سے بڑا مارچ ہونے کا دعویٰ تھا مگر پھر کوئیک مارچ کرتے سرپٹ دوڑتے جدھر سینگ سمائیں کی کیفیت بن گئی۔ اب باہم اختلافات کی ہاہا کار مچی پڑی ہے۔

بنگلہ دیش ایک انقلاب سے گزر کر قومی یک جہتی کے ساتھ احتیاط سے مستحکم ہونے کی منزلیںطے کر رہا ہے۔ اندرونی، بیرونی دشمنوں کو یہ تبدیلی ہضم نہیں ہو رہی۔ عبوری حکومت بین الاقوامی برادری اور اندرونی معاملات پر عمدہ گرفت کے ساتھ اقدامات کر رہی ہے۔ عوام کا اعتماد اسے حاصل ہے۔ ان کی درخواست پر ہیگ میں عالمی فوجداری عدالت (ICC) اس پر تیار ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے بین الاقوامی کرائمز ٹربیونل (ICT) کی مدد کرے جو، جولائی اگست میں (حسینہ واجد حکومت میں) اجتماعی قتل کے مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ نیز میانمر فوج کے کمانڈر انچیف مِن آنگ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا مطالبہICCکے چیف پراسیکیوٹرنے کیا ہے۔ تاکہ روہنگیا آبادی کے خلاف کیے گئے جرائم پر انصاف ممکن ہو۔ ان مظالم کی بنا پر 10 لاکھ روہنگیا کو زبر دستی ملک بدر کیا گیا (2017ئ)، ساڑھے 7 لاکھ نے بنگلہ دیش میں پناہ لی۔ اب ان کے لیے بھی غزہ کی طرح قتل عام اور اپار تھائیڈ (اچھوت) کی اصطلاح دی گئی ہے۔ بنگلہ دیش حکومت نے ان کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ جس پر ICC اقدام کرنے کو ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ حسینہ واجد حکومت سے یکسر مختلف بنگلہ دیش کی عبوری حکومت پاکستان اور امت سے اظہار ِاخوت کرتی ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں یک جہتیٔ فلسطین اور علامہ اقبال کے دن منائے گئے۔ کلامِ اقبال پڑھا گیا ۔ یوم ِقائداعظم پر اللہ کی شکرگزاری کی کہ اگر قائد اعظم نہ ہوتے تو ہمارا حشر مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا سا ہوتا! روہنگیا مسلمان عبوری حکومت کی ان کے لیے کشادہ ظرفی اور مددپر متشکر ہیں۔ ڈاکٹر یونس نے بھر پور جذباتی تقریر میںفلسطین کے ساتھ اظہار ِیک جہتی و اخوت کیا۔ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ انہوں نے یوم یک جہتی فلسطین کے تناظر میںکیا۔ کہنے لگے: انقلاب کا دلکش ترین منظر تو یہ ہے کہ ایک سمندر ہے فاتح بنگلہ دیشی عوام کا، بنگلہ دیش اور فلسطین کے جھنڈے ساتھ ساتھ اٹھائے۔ اللہ ہمیں بھی ملّی یک جہتی کی نعمت اسلام کے پرچم تلے عطا فرمائے ۔ آمین۔ تاہم یہ مناظر دشمن کے لیے نہایت تکلیف دہ ہیں۔ بھارت تلملا رہا ہے اور اقلیتوں کے نام پر ہندوؤں کے لیے کوئی نہ کوئی ہنگامہ بپار کھتا ہے۔ اگرچہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے ساتھ مثالی سلوک، جان ومال کا تحفظ، درگا پوجا میں تعاون اور آزادی کا اہتمام رکھا گیا۔ مگر تمامتر رواداری کا جواب حال ہی میں ایک ہندو تنظیم ہرے کرشنا (Iskcon) نے فساد برپا کر کے دیا۔ یہ ایک شدت پسند تنظیم ہے جو بین المذاہب بد امنی اور شورش پھیلانے کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اسی بنا پر اس پر ملائیشیا، انڈونیشیا، سعودی عرب اور سابقہ سوویت یونین میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ ان کے ایک سادھو کرشنا داس ہندو لیڈر کو بنگلہ دیش کے جھنڈے کی بے حرمتی پر گرفتار کیا گیا۔ اس کی ضمانت نہ ہونے پر مشتعل حامیوں نے پتھراؤ، توڑ پھوڑ، غنڈہ گردی کے دوران سرکاری وکیل کو اغوا کر کے قتل کر دیا۔ پولیس نے گرفتاریاں کیں جن میں عوامی لیگ اور خلافِ قانون چھاترا لیگ کے ممبران بھی پٹرول بموں کے ساتھ گرفتار ہوئے۔ بھارت نے اس پر واویلا کیا۔ بنگلہ عوام نے شدید رد عمل دیا۔ وکیل سیف الاسلام کا بہت بڑا جنازہ بار بار ہوا۔ غرض پورا ملک سیف الاسلام کے قتل پر شدید غم و غصے کی لپیٹ میں رہا بلا تفریق۔ Iskconپر پابندی کا مطالبہ رہا کہ یہ ملک کا امن خراب کرنے کے مرتکب ہیں۔ بھارتی اعتراضات کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔
ادھر یکایک شام کانسبتاً خاموش محاذ گرم ہو گیا۔ طویل کہانی جو مشرقِ وسطیٰ میں عرب بہار میں مارچ 2011 ء سے شام میں شروع ہوئی تھی۔ نصیری اقلیت سے تعلق رکھنے والے حافظ الاسد کا30 سالہ دور حکومت اس کی موت پر ختم ہوا۔ باپ کے بعد بیٹے بشارالاسد نے 2000 ء میں اقتدار سنبھالا ۔دونوں آمرانہ ادوار میں شدید بے روزگاری، کرپشن رہی، سیاسی آزادی سلب تھی۔جمہوری حقوق، ظلم و جبر سے نجات اور صدر بشار سے استعفیٰ کے مطالبے کی پرامن تحریک کو بے رحمی سے کچل دیا گیا۔غزہ کی طرح شہر ملبے کے ڈھیر بن گئے ۔ عوام نے اپنے تحفظ کے لیے اسدی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ اسلامی گروپوں کو قوت پاتے دیکھ کر اسد کے بین الا قوامی بہی خواہوں کو تشویش ہو گئی! جنگ بڑھی پھیلی۔ اسد کی اپنی شامی فوج کم سازو سامان اور جبری بھرتی پر مبنی، جذبے سے عاری فوج تھی لہٰذا مسلسل پسپا ہوتی رہی۔بی بی سی (مئی: 2023ئ) کے مطابق روسی فضائیہ اور ایرانی فوج کی مدد پر انحصار بہت بڑھ گیا۔ روسی فوجی اڈوں سے روسی فضائیہ ’باغیوں‘ اور شہریوں کو نشانہ بناتی رہی۔ ایران نے اربوں ڈالر اسد کی مدد پر خرچ کیے۔ ہزاروں مسلح تربیت یافتہ جنگجو بشمول حزب اللہ (لنبان)، عراق، افغانستان (ہزارہ قوم) اور یمن شام میں اسلامی قوتوں سے بر سر پیکار رہے۔ بی بی سی کی یکم دسمبررپورٹ میں ایک امریکی حکومتی ترجمان کے مطابق بھی شام، روس اور ایران کی مدد پر چل رہا ہے۔ بمباریوں، کیمیائی حملوں، بھوک سے بلبلاتے شام پرقیامت توڑی گئی۔ بشار الاسد اور عالمی قوتوں کے اکٹھ سے 2.2 کروڑ آبادی میں سے 68 لاکھ شام چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ 20 لاکھ مہاجرین نے خیمہ بستیوں میں سر چھپائے (شدید سرد موسموں میں بھی)۔ غزہ ہم دیکھ چکے۔ عین وہی سب 2.2 کروڑ شامی مسلمانوں پر بیتی! 2020ء میں جنگ بندی کے باوجود ادلب پر بمباریاں جاری رہیں۔ 2023 ء میں UN کا کہنا تھا کہ 15.3 ملین شامی انسانی ضروریات کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ یو این نے اطلاع دی کہ دنیا کی زبردست بے اعتنائی، اور جنگ و جدل کے ہاتھوں انسانی ضروریات، طبی سہولتوں کا بحران در پیش ہے۔ 400 طبی مراکز پر 60 حملے ہوئے۔ فزیشنز کی ہیومن رائٹس رپورٹ کے مطابق (فروری 2022ئ) 942 طبی عملے کے افراد (بشمول ڈاکٹرز) شہید ہوئے۔ شہریوں کو شدید بمباریوں کا سامنا کرنا پڑا۔(غزہ کی طرح) قصداً آبادیاں بھو کی ماری گئیں انسانی امداد روک کر۔ یہ وہ وقت تھاکہ بھوک سے تڑپنے والوں نے فقہاء سے بلیاں، کتے کھانے کی اجازت مانگی تھی! 2021 ء میں جنگ بندی ہوئی۔ 40 لاکھ لوگ شہروں، قصبوں سے در بدر ہو کر ادلب میں رہ رہے ہیں جس پر حیاۃ تحریر الشام (جو دہشت گرد تنظیم ہے!… اسرائیلی دہشت گرد نہیں، انسان دوست معصوم نیتن یاہو ہوا کرتے ہیں!) بڑی قوت ہے ۔یہ تمہید طولانی تھی 13 سال کے بعد اب اچانک غیر متوقع طور پر تحریر الشام اور ہمنوا گروپس نے چھ دن کے اندر پیش قدمی کرکے تین صوبوں کا مکمل کنڑول حاصل کر لیا ۔ بشار حکومت کے اتحادی د مشق فرار ہو گئے۔ اسدی فوجوں کے بھاری ہتھیار، ٹینک، فوجی گاڑیاں، ڈپو قبضے میں آئے۔ روس فضائی حملے بھی برق رفتار فتوحات روک نہ سکے۔اب اہم ترین صوبہ حمص پر چڑھائی جاری ہے۔ِِِِ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی نصرت فرمائے۔ پوری دنیا میں دربدر ہوتے مجبور و مقہور شامیوں کے لیے بھی ضمیرِ عالم بیدار ہو۔ (آمین)
امت پہ کتنی آج گراں ہوگئی حیات

تبصرے بند ہیں.