پروپیگنڈا،فیک نیوز اور فارمیشن کمانڈرزکانفرنس

111

کل سے شروع ہونے والاہفتہ عدالتی مقدمات کے حوالے سے بہت ہی ہنگامہ خیزہونے والا ہے۔آئینی بینچ نے وہ تمام مقدمات سماعت کے لیے مقرر کر دیئے ہیں جن کے گرد ہماری سیاست چکر کاٹتی رہی ہے اور اب یہ چکر ختم ہوں گے یا مزید چکردیں گے یہ فیصلہ ہونے کے قریب ہے۔اس ہفتے مقررہونے والے مقدمات میں فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل،نومئی پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی عمران خان کی درخواست،8فروری کے الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کا کیس،پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کا کیس اور ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس بھی اس ہفتے آئینی بینچ سنے گا۔ان تمام مقدمات کے فیصلے پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہوں گے خاص طورپرالیکشن دھاندلی اور نومئی کے مقدمات کے دوررس نتائج ہوں گے۔ آنے والا ہفتہ ہنگامہ خیز رہے گا توگزرے ہفتے میں ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے اختتام پر جاری اعلامیہ بھی بہت اہم ہے۔اس اعلامیے میں فیک نیوز اور پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے میں حکومت کی ناکامی کا ذکربھی ہے جس کو مسلح افواج نے انتہائی تشویشناک کہا ہے اور حکومت سے فیک نیوز کے خلاف سخت قانون سازی کرکے ملک میں افراتفری پھیلانے اور مسلح افواج کو بدنام کرنے والوں کو قانونی کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی کیاہے۔

فیک نیوز،جعلی خبریں،من گھڑت اور من بھاتی کہانیاں ویسے توپوری دنیا کا مسئلہ ہے لیکن ہمارا کچھ زیادہ ہی ہے۔ دنیا میں اس مشق کے اثرات زیادہ اس لیے نہیں کہ وہاں سسٹم مضبوط ہیں۔قانون کی حکمرانی ہم سے کہیں زیادہ بہتراور سب سے بڑھ کر ہتک عزت کے قوانین مضبوط بھی اوران پرعملدرآمد بھی۔ برطانیہ میں ہی ایسی ایسی مثالیں کہ جعلی خبریں ثابت ہونے پراتنے جرمانے دینے پڑے کہ میڈیاکمپنیاں دیوالیہ تک ہوگئیں۔غلط خبریں دینے والے صحافیوں کے کیریئر ختم ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں سب چلتا ہے۔وجہ صرف ایک کہ کوئی قانون نہیں اور جو قانون ہے اس پر نہ عمل ہوتا ہے اور نہ ہی عدالت میں اس طرح کے مقدمات کا فیصلہ ۔عمران خان نے آٹھ سال پہلے شہبازشریف پرکسی فرنٹ مین کے ذریعے دس ارب روپے کی پیشکش کے عوض دھاندلی کے خلاف جاری تحریک کو ختم کرنے کا الزام لگایا ۔شہبازشریف اس کو عدالت لے گئے ۔اس کے بعد عدالت کے بلانے پرکبھی عمران خان عدالت آئے نہ ہی اس کیس کا فیصلہ آیا۔الزام ابھی بھی ہوا میں ہے ۔ایسا ہی ایک کیس آٹھ سال پہلے کا اورہے جس میں خواجہ آصف نے پریس کانفرنس کرکے شوکت خانم کے پیسے آف شورکمپنیوں میں انوسٹ کرکے نقصان ہونے کی بات کی تھی ۔اس پر عمران خان خواجہ آصف کو عدالت لے گئے تھے ۔ماشاللہ اس کیس کو بھی آٹھ سال ہوگئے ہیں ،فیصلہ نہیں ہوا۔سوچیں جب ہتک عزت کرنا اتنا آسان اورناقابل سزا ہوجائے گا تو پھر جھوٹ ،جعل سازی کی حکمرانی ہی ہوگی ۔

جعلی خبروں کا الیکشن پراثرانداز ہونے کا اسکینڈل پہلی مرتبہ دوہزارسولہ کے امریکی الیکشن میں سامنے آیا جب کیمبرج انالیٹکا نامی کمپنی پر فیس بک کے ساتھ مل کر ووٹرزپر ان کے ذاتی ڈیٹا کی بنیادپر رائے بنانے کے الزامات لگے۔اس کے بعد دنیا میں فیک نیوزکوبطور خطرے کے دیکھا جانے لگا۔ جوں جوں سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا وسیع ہوا۔ اس کا استعمال کرنے والے بڑھتے گئے تو جعل سازی کے رجحانات بھی بڑھنے لگے۔میں دوہزار اٹھارہ میں امریکی ادارے ایسٹ ویسٹ سنٹر کی طرف سے سنگاپورمیں منعقدہ انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس میں شریک ہوا۔اس کانفرنس کا عنوان ہی یہ رکھا گیا تھا کہ ’’خبر کیا ہے‘‘۔اس کانفرنس کے دوران فیک نیوز اس کے اثرات اور تدارک کے طریقے اور فورم زیر بحث رہے۔فیس بک پر الزامات کے بعد فیس بک نے جعلی پروفائل اورخبروں کے تدارک کے لیے اربوں ڈالر سے ’’جرنلزم پراجیکٹ‘‘ شروع کیا۔مجھے سنگاپورمیں فیس بک اور گوگل کے ریجنل ہیڈکوارٹرزمیں جانے کا موقع ملا۔میں نے فیکٹ چیکنگ کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا۔اورفیکٹ چیکنگ کوئی بہت زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔بس آپ کو اپنی سوچ کو ’’لوجیکل یامنطقی‘‘ بنانا ہے۔اس برس فلپائن میں ہوئی انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس میں جانے کا موقع ملا تو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی جعل سازیاں اور صحافتی چینلجز موضوع تھا۔وہاں بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

پاکستان میں جعلی خبریں ہمارے معاشرے کے لیے تباہی کی وجہ بن رہی ہیں۔ہمارے ہاں کسی کو خبر کے جعلی یا اصلی ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بس خبر ان کی سیاسی ،مذہبی اور معاشرتی سوچ کے مطابق ہونی چاہئے ۔ جو خبر یا انفارمیشن سیاسی رائے کے ساتھ ہم آہنگ ہے وہ ان کے لیے درست اور جو اس کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے وہ جعلی ہے۔یہ کوئی ایشو نہیں بلکہ باقاعدہ ایک بیماری ہے جس میں ہمارا معاشرہ اس وقت ’’گوڈے گوڈے‘‘ ملوث ہو چکا ہے۔ یہاں جھوٹی خبریں گھڑنے والے،انہیں اپنے سبسکرائیبرز اور فالوورز کے سیاسی رجحان سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اینگل دینے والے باقاعدہ سیاسی جماعتوں کے ہیروز ہیں۔ دونوں کا مفاد ایک ہے۔ ایک کا مفاد پیسا اور شہرت ہے جو اس کو مل رہا ہے اور دوسرے کامفاد اپنی سوچ اور سیاسی رجحان کو مطمئن کرتے رہنا ہے۔یہ ایسا گٹھ جوڑ ہے جو ہمیں کبھی بھی فیک نیوز سے باہر نہیں آنے دے گا۔

ن لیگ اس محاذ پر ناکام رہی لیکن پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کے لوگوں کی معیشت اس دھندے سے وابستہ کردی۔اب ان کو ذاتی طورپرکسی پر محنت کی ضرورت نہیں ۔انہوں نے یوٹیوبرزکو ایسا ماڈل دے دیا کہ جو ان کی سیاسی رائے کا ہم آہنگ ہوگاوہ اس یوٹیوبر کو ’’ویوز‘‘ بھی دیں گے اور ان چینلز کو پروموٹ بھی کریں گے۔بس آپ نے پی ٹی آئی کے حق میں وی لاگ کرنے ہیں آپ کا چینل بھی مقبول ہوگا۔ سبسکرائبر بھی ملتے جائیں گے اورڈالر بھی ۔سب اسی دائرے میں گھومتے ہیں تو پھرایک جعلی خبر مزید جعل سازی کو جنم دیتی ہے۔ فیک نیوزکی فیکٹریاں ترقی کرتی ہیں اور معاشرہ نفرت، تقسیم اور ہیجان کا شکار ہوکر کمزور ہوتا جاتا ہے۔ سچ کا سفر مشکل ضرور ہوتا ہے لیکن اگر کوئی اس راستے کا مسافر بننا چاہے تو اس کو راستہ بھی ملتا ہے۔ ہاں منافع بہرحال فیک نیوز کی فیکٹری کھڑی کرنے میں ہے۔ اس کا ازالہ اور مقابلہ کسی سخت قانون سے نہیں بلکہ ہتک عزت کے مقدمات کی جلدسماعت اورتیز فیصلوں سے ممکن ہوگا۔کیا ہم یہ کرسکتے ہیں؟اگر ہوسکا تو یہ ملک ،معاشرہ اور لوگوں کی پگڑیاں بچ سکتی ہیں لیکن اگرملکی معیشت اور سلامتی پر جعلی خبروں سے ڈالرکمانے کا ماڈل غالب رہا تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔

تبصرے بند ہیں.