گنڈاپور ان ٹربل!

102

میڈیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کے کردار پر تبصرے کرنا اور ان کے رویوں پر تنقید کرنا ہمارے معاشرے میں یا شائد پوری دنیا میں ایک آسان اور اہم موضوع بن چکاہے۔ شائد ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جن میں سے بیشترایسے ہیں جو اپنے آپ کو عوامی نمائندہ کہلوا کر ملک کے وسائل پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔ آئیڈیل صورتحال میں تو سیاستدانوں کے کردار کی بنیاد اصول پسندی اور ایمانداری پر ہونی چاہیے، لیکن بدقسمتی سے یہ لوگ دوہرہ معیار اپنا کر وقتی فوائد تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن اس سب کے نتیجہ میں اپنی شخصیت اور اپنے پیشہ پر عوام کے اعتماد کو بری طرح مجروح کر دیتے ہیں۔

دوہرے معیار سیاست میں نہ صرف عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں سیاسی نظام بھی کمزورہوتا ہے۔ جب سیاستدان اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام ہوتے ہیں، تو یہ رویہ عوام کو نظام سے بددل کر دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں، جو کہ جمہوریت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ دوہرے معیار ترک کریں اور اپنی پالیسیوں میں شفافیت لائیں تاکہ سیاست اور سیاسی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ یہ تو تھی بنیادی بات لیکن اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی سیاست پر بالعموم اور صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے کردار اور رویوں پر بالخصوص روشنی ڈالی جا سکے،اور لوگوں کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ کس طرح جھوٹ در جھوٹ بول کر اور صفر کارکردگی کی بنیاد پر انتہائی آسانی سے عوام کو دھوکا دیا جا سکتا ہے۔ پچھلے دنوں یہ خبر کافی گردش میں تھی کہ بار بار تمام تر صوبائی وسائل، مشینری اور افرادی قوت کو استعمال کر کے وفاق پر چڑھائی کرنے کی پاداش میں وفاقی حکو مت یا تو صوبہ خیبر پختونخواہ میں گورنر راج نافذ کرنا چاہتی ہے یا پھر کسی بھی اور طریقے سے یہاں کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو وزرات اعلیٰ کے منصب سے الگ کر کے گرفتار کرنا چاہتی ہے۔

اس خبر کی سچائی اور پریکٹیکل ویلیو کو جانچنے سے پہلے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ مسٹر گنڈاپور کا ماضی قریب میں کردار کیا رہا ہے۔ وہ اسمبلی اجلاسوں، جلسے جلوسوں یا میڈیا ٹاک میں تو بھرپور بڑھک بازی بھی کرتے رہے ہیں اور سنگین قسم کی دھمکیاں بھی دیتے رہے ہیں، اس کے علاوہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے لیے صوبہ کے تمام تر وسائل کو بھی بروکار لاتے رہے ہیں لیکن جلسہ جلوس میں یا کسی بھی سرکاری میٹنگ کے سلسلہ میں جب اسلام آباد پہنچ جا نے کے بعد تو وہ ایک بالکل ہی مختلف علی امین گنڈاپور بن جاتے ہیں ۔ یا تو ایک گڈ بوائے کی طرح اچھا اچھا رویہ اپناتے ہیں یا پھر سین سے بالکل ہی غائب ہی ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد برآمد ہونے کے بعد اپنے غائب ہونے کی عجیب و غریب اور مضحکہ خیز قسم کی توضیحات بھی پیش کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے اپنے ہی کارکنوں اور قیادت کی بڑی تعداد اور بیشتر تجزیہ کار ان کے کردار کو شک شبہ سے بالا تر قرار دینے کو تیار نہیں۔ اور ان کاماننا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ہونے والے حالیہ جلسے جلوسوں اور احتجاج میں ناکامی کی بڑی وجہ علی امین گنڈا پور ہی ہیں۔ ایک دوسرے موقف جو قدرے تگڑا معلوم ہوتا ہے کے مطابق اگر علی امین گنڈاپور کے سیاسی کردار پر اٹھنے والے اعتراضات کو درست مان لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے معاون قسم کے کردار کو صوبے کی وزارت اعلیٰ سے ہٹانے میں تو وفاقی حکومت کا نقصان ہی نقصان ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ آئندہ انہیں اس قسم کا معاون کردار دستیاب نہ ہو۔

پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کی جانب سے ممکنہ طور دی جانے والی سول نافرمانی کی کال یقینی طور پر علی امین گنڈا پور کے مشکلات میں مزید اضافہ کر دے گی کیونکہ یقینا پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخواہ کی وزارت اعلیٰ تو کسی بھی صورت میں چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو گی۔ اس کی وجہ ایک توماضی میں اسی قسم کے فیصلے کے انتہائی منفی نتائج ہو سکتے ہیں اور دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت صوبہ خیبر پختونخوا پولیس اور مختلف اداروں کو مطلوب بے شمار افراد کے لیے ایک پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ وہاں پر حکومت سے دستبرداری کا واضح مطلب یہی ہو گا کہ پی ٹی آئی کی تمام مطلوب قیادت اور دیگر کارکنان سلاخوں کے پیچھے ہوں۔

لیکن بانی چیئرمین صاحب کی کال کے جواب میں یہ بھی کیونکر ممکن ہو پائے گا کہ ایک صوبہ کی گورننس بھی آپ کے پاس ہو اور وہیں آپ سول نافرمانی کی کی کالیں بھی دے رہے ہوں۔ اس کے علاوہ بشریٰ بیگم کی ناصرف خیبر پختونخوا بلکہ وزیراعلیٰ ہائوس میں مستقل موجودگی اور پارٹی معاملات میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی اور مداخلت بھی گنڈا پور صاحب کے لیے دردسر بنی ہوئی ہے۔

علی امین گنڈاپور صوبہ خیبر پختونخوا میں اب تک کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا پائے ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنان بھی ان سے نالاں ہی نظر آتے ہیں اوپر سے وفاق اور اداروں کے خلاف بھی مستقل شعلہ بیانی ان کے لیے فوری طور پر نہیں تو مستقبل میں پریشانیوں کا باعث بن سکتی ہے یعنی کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسٹر گنڈا پور سیاسی بھنور میں پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
علی امین گنڈاپور سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے علاقے کے مسائل کو حل کریں گے اور عوام کے لیے کچھ عملی اقدامات کریں گے لیکن اس حوالہ سے ان کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ ترقیاتی منصوبے نہ ہونے کے برابر ہیں اور انہوں نے عوام کو درپیش تعلیم، صحت، امن و اماں اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری پر توجہ دینے کی بجائے اپنے آپ کو سیاسی نعروں اور جلسوں تک ہی محدود رکھا ہے۔
یقینا بڑھک بازی کسی بھی مسلہ کا حل نہیں بلکہ صرف خدمت کی سیاست اور عملی اقدامات سے ہی عوام کا اعتماد برقرار رکھنا ممکن ہے۔ عوام نے علی امین گنڈاپور سے ترقی، خوشحالی، اور مسائل کے حل کی امید رکھی تھی، لیکن ان کی سیاست اور ان کے طرزعمل نے ان توقعات کو مایوسی میں بدل دیا۔یقینا پاکستان کی سیاست میں ایسے رویے اور کارکردگی کی کوئی جگہ نہیں جہاں عوام کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اور صرف بڑھک بازی اور اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول پر تمام تر توجہ اور توانائی صرف کی جائے۔

تبصرے بند ہیں.