میں پچھلے تین دنوں سے اپنے عزیز چھوٹے بھائیوں نجم الدین اویس اور محمد اسامہ کی محبت کے حصار میں ہوں ، میں آدھی د±نیا گھوم چکا ہوں مگر پورا پاکستان ابھی تک نہیں دیکھ سکا ، بلکہ پورا لاہور ابھی تک نہیں دیکھ سکا حالانکہ کامران لاشاری نے خصوصا ًلاہور کے بہت سے علاقوں اور مقاموں کو اب دیکھنے لائق بنا دیا ہے ، مجھے نہیں معلوم یہ کس نے کہا تھا ”جنے لاہور نئیں تکیا جمیا ای نئیں“ ، مگر میں نے اس پر کہا تھا جس نے بھی یہ کہا وہ لاہور سے باہر کبھی گیا ہی نہیں ہوگا ورنہ د±نیا اتنی خوبصورت ہے لاہور کیا ہونا ہے ، ہاں یہ درست ہے ڈپٹی کمشنر لاہور اس کے بعد چیئرمین پی ایچ اے لاہور اور اب والڈ سٹی اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر کامران لاشاری نے لاہور کو خوبصورت بنانے کی جو کاوشیں کیں ان کی بدولت ہم تھوڑا بہت ضرور اس بات سے اتفاق کر لیتے ہیں کہ”جنہیں لاہور نئیں تکیا جمیا ای نئیں“ ، لاہور کے صرف چند علاقے ہی صاف ستھرے ہیں جیسے ہماری کچھ سرکاری کالونیاں جی او آر وغیرہ ، یا وہ چند سڑکیں جو حکمرانوں ان کے مالکوں یا کچھ غیر ملکی مہمانوں کی گزر گاہیں ہیں ، دو سال پہلے مجھے یونیورسٹی آف بہاولپور کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا ، تب میں پہلی بار بہاولپور گیا تھا ، مجھے لگا یہ پاکستان سے کہیں باہر یورپ ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ یا کینیڈا وغیرہ کا کوئی صاف ستھرا شہر ہے ، جہاں گندے نالے بھی صاف شفاف جھیلوں جیسے ہوتے ہیں ، ایک بار میں امریکہ میں سن فرانسسکو کے ایک علاقے یونین سٹی میں اپنے بھائی خواجہ وقاص کے ساتھ کہیں جا رہا تھا راستے میں مجھے ایک خوبصورت ندی دکھائی دی ، میں نے اس سے کہا ”گاڑی روکو کچھ لمحے اس ندی کنارے بیٹھتے ہیں“ ، وہ مسکرایا ، کہنے لگا ”بھائی جان یہ ندی نہیں اس علاقے کا گندہ نالا ہے“ ، بہاولپور کی شکل میں پاکستان کا ایک صاف س±تھرا شہر دیکھ کر میں نے سوچا کاش پورا پاکستان بہاولپور جیسا ہوتا ، یہ بھی شکر کا مقام ہے ہم نے بہاولپور کو پورے پاکستان جیسا نہیں بنا دیا ، یا اپنے جیسا نہیں بنا دیا ، پاکستان کا اب شاید ہی کوئی شہر یا علاقہ ایسا ہو جسے ہم نے اپنے جیسا گندہ نہ بنایا ہو یا کم از کم اس کے لئے ”مخلصانہ کوشش“ نہ کی ہو ں ، مجھے لگتا ہے بہاولپور کی قسمت اچھی ہے اسے سول و پولیس افسران بھی زیادہ تر اچھے ملتے ہیں جو اس شہر کو کسی بھی حوالے سے گندہ نہیں ہونے دیتے ، شہر کی صفائی س±تھرائی و انتظامی امور ظاہر ہے سول افسران کی اور کرائم کنٹرول کرنا پولیس افسران کی ذمہ داری ہوتی ہے ، مجھے نہیں معلوم ماضی میں کون کون سے پولیس افسران یہاں ایسے تعینات رہے جنہوں نے کرائم کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کیا مگر گزشتہ دو برسوں سے یہاں رائے بابر سعید بطور آر پی او تعینات ہیں ، وہ لاہور میں بھی بطور ڈی آئی جی آپریشنز تعینات رہے ، اس دوران مجھے لاہور کا ایک ایس ایچ او ایسا نہیں ملا جس نے کہا ہو کہ ”ہمارے صاحب (ڈی آئی جی آپریشنز ) اپنے فلاں کار خاص یا سالے وغیرہ کے ذریعے ہم سے منتھلی لیتے ہیں یاہم بھاری رقمیں دے کر ایس ایچ او لگتے ہیں“ ، افضال کوثر بھی ایسے ہی ایک ایماندار و شاندار پولیس افسر ہیں جنہوں نے بطور ڈی آئی جی آپریشنز ، لاہور میں اتنی محنت کی ا±نہیں نکالنا پڑ گیا کہ اگر لاہور میں کرائم کنٹرول کرنے کے لئے ایسی ہی انتھک محنت کی روایت پڑ گئی پھر شاید ہی کوئی پولیس افسر اس معیار پر پورا ا±تر سکے گا ، چنانچہ ایک سیاسی ایشو کو جواز بنا کر انہیں ہٹا دیا گیا ، یہ وہ پولیس افسر ہے جس کے بدترین د±شمن بھی اس کی ایمانداری کی قسمیں دینے پر تیار ہو جاتے ہیں ، ایک بار ان کے ایک ڈرائیور نے مجھے بتایا ”صاحب کے بچوں کی سکول کی فیسیں قسطوں میں جاتی ہیں“دوسری طرف ایسی ایسی چولیں اور کھچیں لاہور میں بطور ڈی آئی جی آپریشنز تعینات رہی ہیں جو اپنے بچوں کی دو دو سالوں کی ایڈوانس فیسیں جمع کروا دیتے تھے کیونکہ انہوں نے کون سی پلے سے کروانا ہوتی تھیں ، ایک ڈی آئی جی پیٹرول کی مد میں کروڑوں روپے کھا گیا ، ظاہر ہے اس حرام کاری کا حصہ کہیں اور بھی اس نے پہنچایا ہوگا ، حتی کہ پولیس لائن کی مسجد میں جمعہ کی نماز پر جو چندہ جمع ہوتا تھا اس کا حساب بھی وہ لیتا تھا ، اب جو جونیئر پولیس افسر سیاسی انعام کے طور پر بطور ڈی آئی جی آپریشنز تعینات ہے وہ مال تو شاید نہیں کھاتا مگر جن سیاسی لوگوں کا وہ پالتو ہے ان کے ساتھ گھٹیا وفاداری و غلامی کی قسمیں اکثر وہ کھا ، ک±ھو لیتا ہے ، رائے بابر سعید کے بارے میں مجھے امریکہ سیاٹل میں مقیم ایک پاکستانی دوست نے بتایا ”چند برس پہلے کچھ اعلیٰ پولیس افسران ایک کورس کے لئے سیاٹل آئے تو یہاں مقیم امیر کبیر پاکستانیوں نے ا±ن کی خوب خدمت خاطر کی ، ا±نہیں گ±ھمایا پھرایا ، جب ا± کا کورس ختم ہوا وہ واپس جانے لگے ان کی فرمائش ، خواہش یا”حکم“ پر انہیں بہت سے قیمتی تحائف سے بھی نوازا جن میں آئی فونز اور لیپ ٹاپ وغیرہ بھی تھے ، رائے بابر سعید وہ واحد پولیس افسر تھے جنہوں نے پاکستانیوں سے کہا”آپ نے جو قیمتی وقت ہمیں دیا ، ہماری اتنی خدمت اور عزت کی ، ہمیں گھمایا پھرایا ، میرے لئے آپ کی یہی محبت اور مہربانی بہت ہے ، مجھے اور کچھ نہیں چاہئے“ ، پاکستانیوں کا خیال تھا وہ یہ بات بس ایسے ہی کر رہے ہیں جیسے روایتی طور پر سبھی کرتے ہیں ، مگر رائے بابر نے حقیقی طور پر ایک پرفیوم تک ان سے نہیں لیا ، اس ایماندار شاندار اور ہر قسم کی لالچ ہوس حرص سے پاک پولیس افسر کو سیاٹل میں مقیم پاکستانی آج بھی بہت عزت اور محبت سے یاد کرتے ہیں ، کوئی ایک شخص یہ نہیں کہہ سکتا وہ کسی سیاسی سفارش پر کبھی تعینات ہوئے ، ا±نہیں ا±ن کے اعلیٰ افسران نے ہمیشہ میرٹ پر تعینات کیا ، اسی طرح اسد سرفراز خان آج کل ڈی پی او بہاولپور ہیں ، وہ بھی انتہائی گریس فل پولیس افسر ہیں ، بہاولپور کے میرے حالیہ وزٹ میں بیشمار لوگوں نے مجھے بتایا ان کے دروازے عام لوگوں کے لئے ک±ھلے رہتے ہیں ، ایک تو بہاولپور میں ویسے ہی کرائم کم ہیں ،مزید کم کرنے کے لئے اسد سرفراز خان کی کوششوں کو لوگ بہت سراہتے ہیں اور ہم اس بات پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو سراہتے ہیں کہ فیلڈ میں بیشمار کھچوں اور چولوں کے ساتھ ساتھ کچھ گریٹ پولیس افسروں کو بھی اپنی ٹیم کا انہوں نے حصہ بنایا ہوا ہے ، بہاولپور کے ایک ڈپٹی کمشنر ظہیر انور جپہ کی بھی لوگ بہت تعریف کرتے ہیں ، وہ پونے دو سال وہاں تعینات رہے ، آج کل شاید کسی محکمے میں ایڈیشنل سیکریٹری ہیں ، بہاولپور کے تاریخی ورثے کو اجاگر کرنے اور بیشمار انتظامی امور میں عوام کو ریلیف دینے میں ان کا کردار بھی بہت نمایاں ہے ، ان کا تعلق چینوٹ میں افسروں کی ایک عظیم فیملی سے ہے ، ایک بھائی اسد طاہر جپہ انکم ٹیکس میں اعلیٰ پوزیشن پر ہیں ، وہ بہت محبتی انسان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوبصورت لکھاری بھی ہیں ، ایک اور بھائی سیف انور جپہ بھی کسی اعلیٰ سول عہدے پر تعینات ہیں ، وہ بھی جہاں رہے جہاں گئے محبت اور خدمت کی ایسی ایسی داستاں چھوڑ آئے جو لوگ ب±ھولے نہ کبھی بھولیں گے ( جاری ہے )
تبصرے بند ہیں.