شام کی خانہ جنگی نئی صلیبی جنگوں کا انتباہ

172

اس سے قبل کہ شام میں حالیہ دنوں میں ” تحریر الشام“ کی کارروائیوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے۔ خطے میں رچائے جانے والے اس کھیل کی جزئیات کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔ پینٹاگان جو کہ دجالیوں کا جنگی ہیڈکوارٹر ہے۔ اس نے نائن الیون کرانے سے قبل ایک منصوبہ ترتیب دیا تھا، ایک دجالی ڈاکٹرائن اختراع کی تھی ۔جس کے دو پہلو بنیادی اہمیت کے حامل تھے ۔ 1، امت مسلمہ اور خاص کر مشرق وسطیٰ میں ہر وہ قابل ذکر مسلم ملٹری قوت پارہ پارہ کردی جائے یا پھر اس کے خلاف عوام الناس میں نفرت کے الاﺅ بھڑکا کر اس حد تک متنازع بنا دیاجائے ، کہ وہ لڑنے کے قابل نہ رہے اور نہ ہی آنے والے وقت میں دجالی سلطنت کے احیا میں رکاوٹ بن سکے ۔ جس کا آغاز 1971 میں پاکستان کو دولخت کرنے اور ستمبر 1980 کو عراق ایران جنگ سے ہوا۔اسی طرح 2023 کے اوائل میںپہلے سوڈانی ملٹری قیادت کو دومتحارب گروپوں میں تقسیم کر کے بدترین خانہ جنگی شروع کرا دی گئی ۔حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہاں کے مسلمان دو وقت کی روٹی کے لیے اپنی اولادوں کو بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ لامحالہ یہی گھناﺅنا کھیل مملکت اسلامیہ پاکستان میں کھیل رہے ہیں۔ اسی طرح غزہ اسرائیل جنگ کے دوران حماس و حزب اللہ میں وہ چند کردار جو کسی حد تک صہیونی ریاست اسرائیل سے متصادم کی خواہش رکھتے تھے ، ان کا خاتمہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جس میں بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں برسرپیکار حریت پسندوں کی قیادتوں کے لیے بہت سے اشارے پنہاںہیں۔
بین الاقوامی صہیونی دجالی ڈ اکٹرائن کی کامیابی کے لیے تین طریقے اپنائے گئے ۔ 1، باطل قوتوں نے ننگی و شرمناک جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے براہ راست مسلمانوں کو نشانہ بنایا ۔2،پھر مسلمانوں کے دینی جذبات کو اشتعال دلا کر و استحصال کرتے ہوئے مسلمانوں کی مسلمانوں
کے ہی ہاتھوں قتل وغارت گری کرائی گئی۔ 3، تکفیری ، خوارجی سمیت فرقہ پرست گروہوں کے ذریعے رہی سہی کسر پوری کی گئی۔المیہ یہ ہے کہ ہنوز یہ سلسلہ پوری شدت سے جاری وساری ہے ۔تو دوسری جانب امت مسلمہ کے ہر طبقے و حلقوں کو فکری اور نظریاتی طور پر اس حد تک انتشار کا شکار کردیا گیا کہ وہ اپنے اصلی ہدف یعنی آخری معرکوں میں لڑی جانے والی خون ریز جنگوں کی تیاری کرنے سے بے بس و لاچار ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں امت سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے یکسر مفلوج ہو چکی ہے۔ بلکہ الٹا دشمنوں کی ہائبرڈ وار، سوشل میڈیا وار اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی فتنہ انگیزیوں کا شکار ہوکر مکمل طور پراپنی منزل سے بھٹک چکی ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ امت مسلمہ کا ہر فرد قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی اصلاح کرنے کی بجائے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں، ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر آپس میں ہی دست وگریباں ہیں ۔ امت مسلمہ کی موجودہ انتہائی دلخراش صورت حال راقم کے موقف کی دلیل ہے ۔
شام کے تیزی سے بدلتے ہوئے منظرنامے کے تناظر میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شام میں حالیہ دنوں میں” تحریر الشام“ کی کارروائیاں کہیں داعش کا Replay تو نہیں؟۔ جنگوں کی Strategicپر گہرا عبور رکھنے والا بہرحال اس پہلو کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتا۔خاص کر جب معاملہ امت اسلامیہ کی سلامتی سے جڑا ہوا ہو۔ ایسے خدشات سر اٹھا رہے ہیں کہ تحریرالشام کی کارروائیوں کے نتیجے میں شام کی تقسیم کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔ جو بہرحال مستقبل قریب یا بعید میں عالمی جنگوں کا میدان بننے جارہا ہے۔شام کی تقسیم کے بعد کچھ اس قسم کا نقشہ بنتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، کہ پیش منظر میں عسکری لحاظ سے سب سے زیادہ مضبوط مسلح گروپ ترکی کے حمایت یافتہ ہوں گے ۔ تب دجالی عالمی شطرنج کی بساط کو کچھ اس طرح Tuch دیا جائے گا ۔ کہ اسی شام میں ترکی حمایت یافتہ مسلح گروہوں اور صلیبی فورسز کا ٹکراﺅ یقینی بنایا جائے گا۔ پھر اس موقع پر موجود دوسرے مسلح گروہوں کا بھی آپس میں متصادم کرا دیا جائے گا۔ جس سے صلیبی فورسز کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی ۔اس سارے منظر نامے میں دو یقینی حالات پیدا کیے جائیں گے۔ 1۔ صلیبی اور اس کے حمایتی ترکی پر قبضہ کر لیں گے۔2 یا پھر ترکی میںمکمل صلیبی حمایت یافتہ حکومت مسلط کر دی جائے گی ۔ جو وہاں کے مسلمانوں کی زندگی دوبھر کر دے گی۔صہیونی دجالی وزیر اعظم نیتن یاہو کے اس بیان کہ ” موجودہ جنگیں ہرمجدون Armageddon کی شروعات ہیں“ کو اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا ۔
تب مشیت الٰہی ہو گی، ایک لمبی حدیث کے مفہوم کے مطابق( ”پھر مدینہ سے ایک لشکران کی طرف نکلے گا جو ان دنوں تمام زمین والوں میں بہتر ہو گاوہ قسطنطنیہ کو فتح کرے گا ، اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ کے مفہوم کے مطابق تین تکبیرات سے قسطنطنیہ فتح ہو گا “ )۔ یعنی ہر صورت میں صلیبی اور اس کے گماشتوں کے لشکروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، ان شاءاللہ ۔( آپریشن طوفان الاقصیٰ تو ایک بہانہ تھا، شام ٹھکانہ ہے۔ الحرمین الشریفین اور پاکستان نشانہ ہے )۔بار بار دہرا رہا ہوں کہ پریشان ہم نے بلکہ اسلام کے بدترین دشمن اور اس کے زرخرید ہیں ۔ موت اور مغلوب ہونے کے خوف سے یہ اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں، انسانیت سے مبرا ہو چکے ہیں ۔ لیکن امت مسلمہ کے ہر فرد کے سپرد جو کام کرنے کا ہے ذمہ داری ہے، ان پر شرعی فرض ہے۔ وہ یہ ہے کہ موجودہ فتنوں و فساد اور خانہ جنگیوں سے دور رہ کر قرآن وسنت کی روشنی میں آخری جنگوں کی تیاریاں کریں۔ اے بھٹکی ہوئی امت: تمہیں تو فتوحات کی بشارتیں دی گئی ہیں۔ توکیوں اغیار کے بہکاوے میں آکر ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہی ہے۔

تبصرے بند ہیں.