گذشتہ چند روز سے بلکہ 24 نومبر سے کچھ دن پہلے سے میڈیا پر ایک چورن بیچا جا رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے اسٹیبلشمنٹ کے مذاکرات ہو رہے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک کہاکہ خان صاحب بیرون ملک جانے پر راضی نہیں ہو رہے بس بات یہیں پر ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئی ہے لیکن کوئی درمیانہ راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس میں کیا حقیقت ہے اسی پر آج کی تحریر میں بات کریں گے ۔ عسکری قیادت کی جانب سے فارمیشن کمانڈر کانفرنس میں جو کچھ کہا گیا اور جس لب و لہجہ میں کہا گیا اور آرمی چیف نے جو کچھ کہا اس کے بعد بھی تحریک انصاف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے مذاکرات کی باتیں کرنا بڑے حوصلے کی بات ہے ۔یہ باتیں فائنل احتجاجی کال کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے حالات و واقعات ان باتوں کی تائید کرتے نظر نہیں آ رہے اور یہ بات کہہ کر میں بڑا رسک لے رہا ہوں اس لئے کہ میڈیا کے بہت سے بڑے نام کہ جن کا کہا سند بن جاتی ہے وہ بھی عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں لیکن قرائن اس بات کا ساتھ نہیں دے رہے ۔ اب آپ کہیں گے کہ کیسے تو جب ایسی بات ہو رہی ہوتی ہے تو دونوں اطراف سے سیز فائر کی کچھ علامات ہوتی ہیں جو کہ ابھی تک نظر نہیں آ رہیں ۔ بانی پی ٹی آئی کی 9 مئی کے آٹھ مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں مسترد ہونا اور جی ایچ کیو حملہ کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سو کے قریب دیگر ملزمان کے ساتھ بانی پی ٹی آئی پر فرد جرم عائد کر دی ہے جبکہ عمر ایوب اور بشارت راجہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے علاوہ بانی کے ایکس اکا¶نٹ سے انتہائی غلط ٹویٹ ہونا اور امریکہ میں مقیم تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے آرمی چیف کے متعلق انتہائی نازیبا مہم چلانا ۔ یہ سب کسی بھی طرح سے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی تائید نہیں کرتے ۔ دوسرا جس طرح سے 24 نومبر کی کال کا حشر نشر ہوا ہے اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ صرف ایک وجہ سے ہی عمران خان سے مذاکرات کر سکتی ہے اور وہ بھی اس طرح کہ عمران خان کے مطالبات بھی مانے جائیں کہ بانی کے پاس کوئی گیدڑ سنگھی ہو ۔دوسرا اگر اس طرح کا کوئی سین اندرون خانہ چل رہا ہوتا تو پھر حکومتی ارکان کی باڈی لینگویج بڑی مختلف ہوتی اور نظر آ جاتا کہ اسے پڑتھو پڑے ہوئے ہیں لیکن ایسا بھی نظر نہیں آتا اور تمام وزراءمشیران پر اعتماد نظر آ رہے ہیں بلکہ اس کے بر عکس اگر دیکھیںتو تحریک انصاف کے کیمپ میں انتشار نظر آ رہا ہے اور 24نومبر کی فائنل احتجاجی کال کی بری طرح ناکامی کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشیاں اور ناکامی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنا اور استعفے آنا یہ سب کچھ تحریک انصاف میں ہو رہا ہے اس لئے موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات اور وہ بھی بانی پی ٹی آئی کی شرائط پر کچھ لوگوں کی خواہشات تو ہو سکتی ہیں لیکن ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا ۔
اس کے علاوہ سب سے اہم بات کہ اس وقت اکانومی بہت بہتر ہو چکی ہے اور اس کا ہنڈرڈ انڈیکس ایک لاکھ آٹھ ہزار کے ہندسے کو کراس کر چکا ہے معیشت کے تمام اشارے بہتری کی طرف جا رہے ہیں ۔ صوبائی حکومتیں سکون سے کام کر رہی ہیں کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور حامد خان صاحب نے یکم دسمبر سے جو وکلاءتحریک شروع کرنا تھی اس کا بھی نام و نشان نہیں ہے ۔ مہنگائی کی شرح گذشتہ ستر مہینوں میں سب سے کم سطح پر ہے ۔ حکومت بجلی کے بلوں میں ریلیف کے لئے کوشش کر رہی ہے اور سب سے بڑھ کر تحریک انصاف اب کچھ عرصہ تک کسی نئے احتجاج کی پوزیشن میں نہیں ہے تو پھر مذکرات کس لئے اور کیوں ہوں گے ۔ 26 ویں ترمیم کو ہوئے ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا کوئی احتجاج تو کیا نظر پٹو کے طور پر ایک عدد مظاہرہ تک نہیں ہوا بلکہ الٹا بشریٰ بیگم کی ضمانت کے خلاف عدالت میں اپیلیں دائر کی جا رہی ہیں ۔ بانی پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات بن رہے ہیں اور سب سے خطر ناک بات تو یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف24نومبر کے احتجاج کے دوران رینجرز اور پولیس کے جن سرکاری اہل کاروں کی اموات ہوئی ہیں ان کے قتل کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے تو یہ سارے اشارے اور حالات و واقعات کسی صلح جوئی کی خبریں نہیں دے رہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف خاص طور پر بانی پی ٹی آئی کے درمیان مزیدتلخ حالات کا منظر نامہ پیش کر رہے ہیں ۔
ایک اور بات کہی جا رہی ہے کہ حکومت 9مئی کے حوالے سے صحیح موقف پیش نہیں کر سکی تو اس بات میں بھی کوئی دم نہیں ہے اس لئے کہ نواز لیگ کی قیادت تو یہ بات تسلسل کے ساتھ کہہ رہی ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات اس لئے نہیں ہو سکتے کیونکہ اس نے 9مئی کو جو کچھ کیا اس کے بعد وہ سیاسی نہیں بلکہ ایک دہشت گرد جماعت بن گئی ہے اور پھر اس سارے منظر نامہ میں ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آخر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا پروپیگنڈا کیوں اور کن مقاصد کے لئے کیا جا رہا ہے تو عرض ہے کہ جس بری طرح 24نومبر کی فائنل احتجاجی کال ناکام ہوئی ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہے تو اس ناکامی پر تحریک انصاف کی مقبولیت کے بیانیہ کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ داﺅ پر لگ چکا ہے لہٰذا اسے کسی طرح بچانا تھا۔ اس کے لئے پہلے سیکڑوں بندوں کے مرنے کی باتیں کر کے لاشوں پر سیاست کی کوشش کی گئی لیکن وہ جھوٹ پٹ گیا اس لئے کہ لاشیں تھیں نہ جنازے اور نہ ہی لواحقین تھے پھر بانی پی ٹی آئی کی صحت کی طرف توجہ دلائی گئی لیکن وہ کام بھی نہ بن سکا اور ان کی صحت بھی ٹھیک ہے کی خبریں مل گئیں تو یہ سب اس احتجاج کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے کیا جا رہا ہے لیکن میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے اور نہ ہی ان کی رہائی کا کوئی امکان ہے۔
تبصرے بند ہیں.