وفاق میں احتجاج، ہنگاموں اور دھرنوں سے نمٹنے کیلئے ایک فورس قائم کرنے کے بعد اب پنجاب میں بھی رائٹس مینجمنٹ فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت سے فاصلوں پر رہنے والے اسے ماضی کے ایک تجربے کا اعادہ قرار دے رہے ہیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عہد میں فیڈرل سکیورٹی فورس بنائی تھی، اس کا مینڈیٹ تو کچھ اور تھا لیکن اسے استعمال کسی اور مقصد کیلئے کیا تھا۔ ایک سینئر بیوروکریٹ مسعود محمود اس کے سربراہ بنائے گئے، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، تجربہ کار، خوش مزاج اور نفیس انسان کے طور پر جانے جاتے تھے، انہیں اس ادارے کی سربراہی ملی تو دنیا حیران ہوئی، تبصرے اور تجزیہ پیش کئے گئے کہ وہ اس عہدے اور اس سے جڑی ذمہ داریوں کو نبھا نہ سکیں گے، وہ اس فورس کو برباد کر دیں گے یا خود کو تباہ کر لیں گے، بعد ازاں ایسا ہی ہوا وہ خود بھی برباد ہوئے، ادارہ بھی کہیں کا نہ رہا، وہ اپنی گوناگوں خوبیوں کے باوجود شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوئے، ان کی فورس بھٹو مخالفین کو کچلنے کیلئے استعمال ہوئی اور اس قتل میں استعمال ہوئی جو بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک لے گیا۔ مسعود محمود اس مقدمہ قتل میں وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ انہوں نے عدالت میں بیان دیا کہ انہیں نواب محمد احمد خان کے قتل کا حکم جناب بھٹو نے بذات خود دیا تھا۔ اس مقدمے میں عدالت کے روبرو ایک ڈاکومنٹ پیش کیا گیا جس کی پیشانی پر ہاتھ سے لکھے نوٹ میں کہا گیا تھا کہ اس شخص کو ختم کر دو۔ بھٹو جیسا تجربہ کار سیاست دان اتنی بڑی حماقت نہ کر سکتا تھا لیکن یہ ڈاکومنٹ اور یہ نوٹ ان سے منسوب کیا گیا۔ مقدمے کی مختصر کہانی یوں ہے کہ ہوا ان کے مخالف تھی، انہیں منظر سے ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا تھا لیکن منظر سے ہٹانے کا کام عدالتوں کی معاونت سے کیا گیا۔ قریباً پینتالیس برس ہوا کا رخ بدلا تو لولا لنگڑا انصاف فراہم کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھٹو کو انصاف نہیں ملا۔ آج حکومت مخالفین، احتجاجیوں کو کچلنے والی فورس کے قیام کے فیصلے پر ناخوش نظر آتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ دست دعا بلند کئے ہوئے ہیں کہ اگر حکومت اس فورس کے قیام کا فیصلہ نہیں بدلتی تو اسے مسعود محمود جیسا سربراہ دست غیب سے عطاء ہو اور وہ وقت آنے پر وعدہ معاف گواہ بننے کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔
خصوصی طور پر بنائی گئی فورس سے احتجاج کو کچلنے کے علاوہ اور بھی کئی راستے ہیں لیکن معاملہ لاٹھی کی بجائے گولی سے ہی حل کئے جانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سوچا جاتا ہے مثبت نتائج اس طریق حاصل ہو سکتے ہیں لیکن نتیجہ ہمیشہ منفی ہی سامنے آیا۔ سابق آرمی چیف اور ایک سابق صدر پاکستان دنیا کو باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکہ، یورپ اور ماڈرن لبرل دنیا کی ضرورت ہیں وہ نہ ہوں گے تو مذہبی قوتیں دنیا اور پاکستان کیلئے خطرہ بن جائیں گی۔ پس ایک دشمن کی ضرورت اور تلاش شروع ہوئی جس پر فتح حاصل کرکے وہ اپنے موقف کو سچ ثابت کر سکیں۔ یہ شخصیت مہم جو طبیعت کے مالک جنرل پرویز مشرف تھے، دشمن تلاش کر لیا گیا، وہ نادیدہ ساتھیوں کے اشاروں پر اسلام آباد میں اپنی کارروائیاں کرتے رہے۔ حکومت خاموش رہی لیکن ان کی کارروائیوں کو خوب مشتہر کرتی رہی پھر اس دشمن کیخلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا گیا لیکن اپنی امن پسندی اور صلح جو طبیعت کی تشہیر کیلئے مذاکرات شروع کئے گئے۔ کئی مذاکراتی ٹیمیں لال مسجد جامع حفصہ آتی اور جاتی رہیں، مذاکرات کے ہر دور کے بعد اعلان ہوتا کہ ہم تصفیے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ٹھیک اگلے روز بتایا جاتا جہاں سے چلے ہیں درحقیقت وہیں کھڑے ہیں۔ جنرل مشرف کی ہدایت پر معاملات کو ریورس کرنے والے سیاسی انجینئر تندہی سے اپنا کام کر رہے تھے۔ اچانک مذاکرات ختم کرنے اور آپریشن کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ بتایا گیا کہ جامع حفصہ سے سیکڑوں طلبا اور طالبات کے باہر آنے کے باوجود سیکڑوں غیر ملکی دہشت گرد اندر موجود ہیں جن کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے۔ آپریشن سے ایک رات قبل ایک لیفٹیننٹ کرنل اور میجر گولی لگنے سے شہید ہو گئے، ان کی شہادت نے آپریشن کرنے والی ٹیم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ نیوکلیئر پاکستان کے دارالحکومت پر مبینہ دہشت گردوں سے قبضہ چھڑانے کے آپریشن کی براہ راست کوریج کیلئے عالمی میڈیا اسلام آباد پہنچ چکا تھا۔ علی الصبح پی ٹی وی کے ساتھ پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے میراتھن ٹرانسمیشن شروع کر دی۔ میں لاہور سے چلنے والے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی اس ٹرانسمیشن کا حصہ تھا۔ سرکار کے ارادے دیکھ کر میں نے مشورہ دیا اور درجن سے زائد مرتبہ کہا کہ مسئلے کا آسان حل موجود ہے، محاصرہ تو کیا جا چکا ہے، اسے سخت کر دیا جائے، ضروریات زندگی کے تمام کنکشن کاٹ دیئے جائیں۔ چند روز میں جب سامان ضرورت ختم ہو جائیگا تو جامع حفصہ کے اندر موجود مبینہ دہشت گرد ہتھیار ڈال دیں گے اور گرفتاری پیش کر دیں گے جس کے بعد عدالتوں کے ذریعے جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ کسی نے ایک نہ سنی، ان پڑھ کو پڑھایا جا سکتا ہے، سوتے کو جگایا جا سکتا ہے، فنون حرب پاس کرنے والوں کو کون پڑھا سکتا ہے اور جاگنے والوں کو کون جگا سکتا ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا، آپریشن شروع ہوا۔ درجن بھر کمانڈرز چھت پر اتارے گئے جو سیڑھیوں سے اترتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ بارود نصب کرکے دیواریں توڑی گئیں، سپاہ اندر داخل ہوئیں، مزاحمت بھی ہوئی لیکن ریاست جیت گئی۔ مبینہ تخریب کاروں کو گولیوں سے بھون کے رکھ دیا گیا۔ 167جنازوں کے لئے ایدھی سنٹر نے تابوت مہیا کئے، مارے جانے والوں کی تصاویر بنائی گئیں، ان کے ڈی این اے کئے گئے، کوئی ایک بھی غیر ملکی دہشت گرد نہ تھا، سب جھوٹ تھا۔ جامع حفصہ کو نہلا دھلا کر میڈیا نمائندوں کو اندر کا دورہ کرایا گیا اور تازہ تازہ نکل پالش کی گئی گولیوں کے ڈھیر دکھائے گئے، جدید رائفلیں دکھائی گئیں۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو تمام کہانی سمجھ میں آ گئی کہ مبینہ دہشت گردوں کی حقیقت کیا تھی، کامیاب آپریشن کے خوب چرچے کئے گئے۔
برصغیر کے راجے مہاراجے اور بعد ازاں یہاں قابض انگریزوں میں سے کچھ شیر کے شکار کا شوق رکھتے تھے۔ بندربن کا علاقہ اس اعتبار سے بہت مشہور تھا، سخت جان شکاری مچان پر رات بھر بیٹھ کر شیر کا انتظار کرتے اور باندھے سوئے بکرے پر شیر حملہ کرتا تو اسے نشانہ بناتے اسے ’’گارے کا شکار‘‘ کہتے ہیں۔ دوسری صورت سیکڑوں افراد ڈھول ڈھمکا کرکے سوئے ہوئے شیر کو اس کی کچھار سے باہر نکلنے پر مجبور کرتے، شیر غصے میں آ کر مخالف سمت کا رخ کرتا۔ اسی سمت شکاری تاک میں بیٹھا ہوتا تھا۔ وہ شیر پر گولی چلا دیتا اور کامران قرار پاتا اسے مانکے کا شکار کہتے ہیں۔ مانکے کے شکار کے شوقین آج بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں، مانکے کا شکار کرنا کوئی بہادری نہیں یہ جعلی شیرافگن ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.