کسی مفکر نے کہا تھا قومیںگناہوں سے تباہ نہیں ہوتیں مگر اخلاق تباہ ہو جائیں تو بربادی مقدر بن جاتی ہے پاکستان میں ہر کوئی دوسرے کو یہ درس دیتا دکھائی دے گا کہ فلاں ایسا ہے اگر یوں ہو جائے تو ایسا نہ ہوتا اور ملک کی اکثریت ہر برائی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جاتی ہے، اسلام جس کی بنیاد ہی بہترین اخلاق کو قرار دیا گیا ہے وہ ہمیں خود میں کہیں نظر نہیں آتا۔ ہمارے یہاں ایک طبقہ یورپ میں اسلامی اصولوں کی پاسداری کی بات کرتا ہے اور ان کی خوبیوں میں رطب اللسان ہو کر یہ کہہ جاتا ہے کہ وہاں صرف کلمے کی کمی ہے باقی سب اسلام ہے، تو دوسری جانب ایک طبقہ وہاں کی شراب نوشی اور دوسری بد کاریوں کو سامنے لا کر ان کی تباہی کی نوید سنا رہا ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اخلاقی انحطاط کا یہ عالم ہے کہ تاجر ،دکاندار سودا فروخت کرتے وقت اس کی خرابی کی نشان دہی تو درکنار بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ پیسے تو پورے لیے جائیں مگر سودا خراب دے دیا جاتا ہے اسی طرح دیگر طبقات کا حال ہے ۔ ایک طرف لوگ ٹریفک کے سگنلز کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تو دوسری جانب ٹریفک وارڈن دور کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یورپ کی اچھایوں کو بیان اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہاں اخلاقی قدروں کو زوال نہیں آیا لوگ جھوٹ نہیں بولتے گواہی نہیں چھپاتے، برائی کرنے والے کو اچھا نہیں سمجھا جاتاقانون کی پاسداری ملک کے سربراہ سے لیکر عام آدمی تک کرتا دکھائی دیتا ہے کوئی کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتا ،ریاستی اہلکار (پولیس) اشتہاریوں کا بہانہ بنا کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال نہیں کرتے نہ ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوس پر چھاپے مارتے ہیں قاتلوں دہشت گردوں کی نہ ہی پشت پناہی کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں ہیرو کے درجے پر فائز کیا جاتا ہے۔ اسی لئے وہ معاشرے ترقی کرتے نظر آتے ہیں، بہت ساری مثالیں اور واقعات سنائے جا سکتے ہیں مگر یہاں صرف ایک واقعے پر ہی اکتفا کرتے ہوئے بات آگے بڑھائیں گے، یورپ میں ایک لڑکے اور لڑکی کی محبت عروج پر تھی اور وہ ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہ رہنے کے عہدو پیمان کرتے رہتے تھے ۔کچھ عرصہ گزرا تو ان دونوں نے شادی کا فیصلہ باہمی رضا مندی سے کر لیا اور منگنی کی رسم ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنا کر اپنے رواج کے مطابق ادا کر دی اس کے بعد دونوں خوش خوش لانگ ڈرائیو پر نکل کھڑے ہوئے۔ خوشی کی مستی میں راستے میں اٹکھیلیاں کرتے جا رہے تھے کہ موج مستی میں ایک چوراہے پر لڑکے نے ٹریفک سنگنل توڑ دیا لڑکی نے کہا تم نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ لڑکا کہنے لگا ہنی بھول جاؤ اس معمولی بات کو۔ لڑکی نے کہا، ڈارلنگ پلیز ذرا گاڑی سائیڈ پر روکنا۔ لڑکا ’’خوش ہو گیا‘‘ کہ ’’مراد‘‘ پوری ہونے لگی ہے اور گاڑی کو سائیڈ پر لگا دیا۔ لڑکی نے کار کا دروازہ کھولا اپنی شدید محبت کی پہلی نشانی اور خوشی ’’انگوٹھی‘‘ انگلی سے اتاری اور اسے واپس کرتے ہوئے تاریخ ساز جملہ کہ ’’تم جس کے ساتھ میں نے زندگی گزارنا تھی وہ ٹریفک سنگنلز توڑنے کو معمولی واقعہ کہتا ہے تو نہ جانے عملی زندگی میں کیا کیا خلاف ورزیاں کرے گا، میں ایسے شخص کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی جو قانون کی پاسداری نہ کرتا ہو‘‘ کہا اور چلی گئی۔ کیا یہاں اس بات کا تصور بھی کیا سکتا ہے؟
بات اخلاق سے چلی تھی اور اسی پر رہتے ہوئے ہم یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ ریاست کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اس کا حالات و واقعات پر قابو نہ پانا بھی ہے اس ملک میں قانون ہے پولیس ہے، عدالتیں ہیں پھر بھی لوگ قانون توڑتے اور ہاتھ میں لیتے دکھائی دیتے ہیں اس کی بنیادی وجہ وہی ہے کہ ریاست اپنا بنیادی فریضہ ’’قانون کی عملداری‘‘ سر انجام نہیں دے رہی۔ پاکستان میں ویسے بھی شہریوں کے اخلاق درست کرنے کا ٹھیکہ پولیس اور مذہبی جماعتوں نے لے رکھا ہے پولیس سکیورٹی کے نام پر لوگوں کے گھروں، گیسٹ ہاؤسز اور جہاں اس کا دل کرتا ہے بلا اجازت داخل ہو کر شہریوں کے ’’اخلاق‘‘ درست کر رہی ہوتی ہے تو مذہبی جماعتیں لٹھ لے کر قومی دنوں اور تہوارں پر عوام کے اخلاق درست کر رہی ہوتی ہیں۔ اس ملک میں ہنسی خوشی کے موقع کم سے کم کر دئیے گئے ہیں جس کی بنا پر پورا معاشرہ فرسٹریشن کا شکار نظر آتا ہے پاکستانی قوم کی ہنسی اور خوشی اس ملک کی اخلاق سدھار کے ٹھیکیداروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور انہوں نے آج ملک کو اس حالت تک پہنچا دیا ہے کہ اب ہنسنے اور قہقہے لگانے کے لیے بھی سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ بلکہ اب تو ریاستی مشینری بھی قوم کے اخلاق سنوارنے کے لیے میدان میں لٹھ لے کر نکل آئی ہے پہلے یہ کام مذہبی جماعتوں کے کارکن کرتے تھے، اب پولیس نے کرنا شروع کر دیا ہے، خوف ہی خوف ہر طرف پھیلایا جا رہا ہے اور اس خوف کو پھیلانے میں میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر فیصل آباد میں ایک میوزک کے پروگرام پر ایک مذہبی جماعت کے کارکنوں نے دھاوا بول دیا اور ڈنڈے مار مار کر لوگوں کے اخلاق سدھارتے رہے، ڈیفنس لاہور میں ایک گھر میں ایک نجی تقریب پر پولیس نے دھاوا بول دیا کہ یہاں گانے بجانے کی محفل ہو رہی تھی۔ ان لوگوں کا جرم یہ تھا کہ خوف و دہشت کے ماحول میں کچھ اس طرح سے جدت پیدا کی جائے کہ قوم حزن و ملال سے باہر نکلے مگر ان کی اس کوشش کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا، اس طرح کے واقعات اب روز مرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے عوام کو ہنسنے، بولنے اور قہقہے لگانے کا ذرا سا بھی حق نہیں ہے؟ اگر یہ سب دہشت گردوں کے خوف کے سبب ہے تو پھر ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ یہاں قبرستان جیسا سناٹا ہو اور ملک میں تعمیر و ترقی کا عمل رک جائے لوگ ایک دوسرے سے بے زار ہو جائیں اور کوئی کسی کے کام نہ آ سکے، کیا ایسا ہی نہیں ہو رہا، تو کیا ان کے ارادوں کے آگے قوم کو ہار جانا چاہیے؟ یا مقابلہ کرنا چاہیے؟ ان حالات میں جہاں لوگوں سے ان کی ہنسی اور خوشی چھیننے والے سرگرم ہیں وہاں تو ریاست کے کار پردازوں کے لیے اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ قوم کے اندر پھیلنے والی مایوسی اور ملال کو دور کرنے کے جتن کریں نہ کہ ان پر مزید پابندیاں لگائی جائیں۔ ضروری ہے کہ ملک بھر میں تفریحی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، کھیل تماشے کیے جائیں تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو اور وہ سخت سے سخت حالات کا مقابلہ جواں مردی سے کر سکیں پاکستانی قوم بہت زخم سہہ رہی ہے اور بہت دکھ بھی اٹھائے جا رہے ہیں، ہمارے تقسیم شدہ معاشرے میں مزید توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے برائی کی قوتیں حاوی ہو رہی ہیں۔ اب ہمیں عہد کرنا ہے کہ اب ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے جو اس ملک اور عوام کے دشمن ہیں ان کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے خوشی اور ہنسی پر ہمارا بھی حق ہے اور اسے کسی کو چھیننے نہ دیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.