جنوبی کوریا کا دارالحکومت سیئول دنیا کے مصروف ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے ۔اکیسویں صدی کے آغاز یعنی 2000 ء میں یہاں پر ٹریفک کے شدید دباؤ، بڑھتی ہوئی آبادی ، ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں اضافے، پارکنگ ، ٹرانسپورٹ فضائی آلودگی اور وسائل کے بے پناہ زیاں کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہاں کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بڑھتی ہوئی اربنائزیشن کا ایک ہی حل ہے کہ سیئول سے تمام سرکاری دفاتر وزارتوں اور ریاستی عمارتوں اور بڑے بڑے سرکاری پر اجیکٹ کہیں اور منتقل کر دیئے جائیں۔ کو ریائی حکومت کو خطرہ تھا کہ اگر یہ نہ کیا گیا تو آج سے 25 سال بعد یہاںزندگی گزارنا نا ممکن ہو جائے گا۔
چنانچہ جنوبی کوریا کی حکومت نے ( Setong) سیجونگ کے نام سے ایک نیا شہر آباد کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ طے پایا کے 2030 تک سیئول سے تمام سر کاری دفاتر اور ریاستی سرگرمیاں مکمل طور پر انخلا کر کے نئے دارالحکومت سیجونگ منتقل کردی جائیں گی۔ اس پراجیکٹ پر کام کا آغاز 2007ء میں کیا گیا جو تقریباً آدھے سے زیادہ مکمل ہو چکا ہے حکومت نے کسی افرا تفری اور ہنگامی صورتحال پیدا کئے بغیر نئے شہر کی تعمیر اور بتدریج سیئول سے نقل مکانی کا سلسلہ ایک روٹین کے طور پر جاری رکھا ہوا ہے۔ آدھے سے زیادہ سر کاری دفاتر نئی جگہ پر شفٹ ہو چکے ہیں۔ نئے شہر میں سکول یونیورسٹیاں سول آباد کاری ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ 2030ء تک مکمل ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ جگہ جہاں نیا شہر آباد کیا گیا ہے یہ سیئول سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے جو آہستہ آہستہ ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔
یہ نیا شہر جنوبی کوریا کے صوبہ چنگ چیانگ میں واقع ہے۔ چنگ چیانگ نام سے ہماری رگ ظرافت بھڑک اٹھی کیونکہ یہ ہمیں چنگ چی رکشے کی طرف کھینچ لاتا ہے اور اس حساب سے دیکھا جائے تو لاہور میں اس وقت چنگ چی رکشوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ لاہور کا نام چنگ چیانگ ہونا چاہیے لیکن اس کے پیچھے ہماری پے در پے حکومتوں کی عدم توجہی، منصوبہ بندی کی کمی اور آنے والے خطرات سے غفلت مجرمانہ ہے جسے آنے والی نسل کبھی معاف نہیں کرے گی۔
سیجونگ کی مثال دینے کا مقصد یہ تھا کہ ایک طرف ہمارے جیسا ایک ایشیائی ملک ہے جس نے ترقی کی اتنی تیزرفتار منزلیں طے کی ہیں کہ ان کی بنائی ہوئی گاڑیاں اب امریکی منڈیوںمیں بک رہی ہیں۔ ان کی منصوبہ بندی کو داد دیں کہ انہوں نے 2030 ء میں جو کام مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا اس پر وہ 2007 ء سے کام کر رہے ہیں جن اسباب کی بنا پر انہوں نے سیئول کی جگہ سیجونگ بنانے کا فیصلہ کیا ۔ہمارے ہاں لاہور میں وہ ساری وجوہات 2000ء سے بھی پہلے سے موجود تھیں کہ لاہور میں بڑھتی ہوئی آبادی اور دوسرے شہر سے لاہور میں آباد ہونے کے ہجوم کو روکنے کیلئے جنوبی کوریا کی حکومت جیسا کوئی انقلابی اور طویل المدت اقدام کیا جاتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ہے کہ لاہور کا نام آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں ٹاپ پر آتا۔
سموگ کا مسئلہ براہ راست آبادی میں اضافے اور بڑھتی ہوئی گاڑیوں کے دھوئیں سے وابستہ ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کا عالم یہ ہے کہ ایک طرف لاہور اور شیخو پورہ بڑھتے بڑھتے بعد آبادی کے لحاظ سے باہم مدغم ہو چکے ہیں دوسری طرف لاہور اور رائے ونڈ کا فاصلہ ختم ہو چکا ہے اسی طرح لاہور اور قصور کے درمیان نئی بستیاں آباد ہو چکی ہیں اگلے کچھ سال میں لاہور گوجرانوالہ کے درمیان کوئی وقفہ باقی نہیں رہے گا۔
لاہور کے آلودگی کے نئے سے نئے ریکارڈ بنانے کی سب سے بڑی وجہ یہاں پر اربنائزیشن اورنئی ہاؤسنگ سکیم میں جس کے پیچھے اربوں کھربوں روپے کا رئیل سٹیٹ بزنس ہے جس میں لاہور کا طاقتور طبقہ براہ راست ملوث ہے جس میں زیادہ تر عناصر کا تعلق قومی سیاست سے ہے۔ اس ایلیٹ طبقے نے پورے صوبے کے وسائل ایک شہر پر لگا کہ اس کو اتنا پر کشش بنا دیا ہے کہ پاکستان کے ہر شہر کی ایلیٹ نے اپنا ایک ایک گھر لاہور میں رکھا ہوا ہے۔ مواقع روزگار کیلئے آنے والے غریب طبقے ایک الگ داستان ہے جس کے نتائج اب ہمارے سامنے ہیں۔
حکومت کے لئے اب بھی موقع ہے کہ یہاں کوئی ایسی سیاسی جماعت یا قیادت آئے جو جنوبی کوریا جیسی حکومت کی طرز پر سوچے کہ لاہور سے سرکاری دفاتر کو منتقل کرنے کیلئے کوئی نیا شہر آباد کر دیا جائے۔ اگر یہ نہیں کرنا تو کم از کم نئی سوسائٹیوں پر پابندی لگادیں یہ شہر کینسر کے مرض کی طرح غیر صحتمند طریقے سے فروغ پارہا ہے جس سے عوام کا جینا دوبھر ہوچکا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق لاہور میں 68 فیصد آبادی سموگ کی وجہ سے سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوئی ہے۔
ہمارے ماہرین کو لاہور میں آلودگی کی وجہ سے چنگ چی رکشے کی تعداد اور اس کے دھوئیں میں نظر آتی ہے مگر چنگ چی کی وجہ نظر نہیں آتی کہ جیسے جیسے آبادی بڑھتی ہے چنگ چی بڑھتا ہے اور آبادی زیادہ بڑھتی ہے تو چنگ چی بھی زیادہ بڑھتا ہے۔ لہٰذا جنوبی کو ریا کا شہر سیچونگ شہری مسائل کے خاتمے کیلئے ہمارے لئے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔
انگلینڈ کے شہر لندن میں درختوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ آج بھی اُسے ماہرین جنگلات کی ( Forest ) کی تعریف کے مطابق جنگلات یا فاریسٹ کا درجہ حاصل ہے۔ جس آبادی یا خطے میں درختوں کا تناسب 21 فیصد ہو اسے جنگلات مانا جاتا ہے اس لحاظ سے لندن کو فاریسٹ کا درجہ حاصل ہے جبکہ پاکستان میں درختوں کی شرح جو 10 سال پہلے 2 فیصد تھی اب 1.5 فیصد رہ گئی ہے۔ اب بھی اگر ہوش کے ناخن نہیں لینے تو پھر آپ کی مرضی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں کو اقتدار میں آنے اور پھر اقتدار کو بچانے سے ہی فرصت نہیں ملتی انہوں نے کہاں نئے شہر آباد کرنا ہیں دوسرا یہ کہ نئے شہر آباد کرنے سے ان کے اربوں روپے کے رئیل سٹیٹ بزنس کا کیا ہوگا۔
تبصرے بند ہیں.