حکومت کی سر توڑ کوششوں سے، غیر ملکی قرضوں سے پاکستان کی معاشی جد و جہد مزید گہری ہو گئی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے سخت استحکام کے اقدامات، بشمول سبسڈی میں کٹوتیوں اور زیادہ ٹیکسوں نے معاشی ترقی کو روک دیا ہے، روزگار کی تخلیق میں رکاوٹ ڈالی ہے اور خاص طور پر نوجوانوں میں بے روزگاری کو ہوا دی ہے۔ گو کہ ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد سے سٹاک مارکیٹ ترقی کی حدیں چھو رہی ہے اسکے باوجود ملک میں ایک جماعت کی جانب سے ملکی ترقی کو نقصان پہنچانے کیلئے سڑکوں پر دھماچوکڑی، کفن پہن کر مظاہرے کرنا، الجہاد، الجہاد کے نعرے لگا کر حلف اٹھوا کر معصوم لوگوں کو افواج پاکستان اور حکومت کے خلاف مظاہروں پر مجبور کرنا، بیرون ملک بیٹھ کر نامعلوم ذرائع سے حاصل کی گئی دولت سے پاکستانی اداروںکے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے مہم جوئی، مہنگے ترین پراپیگنڈہ اداروں سے یورپ، امریکہ میں اپنی جماعت کیلئے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرنا، یہ وہ عوامل ہیں جن کے باعث پاکستان کی زرخیز زمین، محنتی افرادی قوت، تمام تر سہولیات کے باوجود بھی غیر ملکی سرمایہ کاروںکیلئے اتنی اثر انگیز نہیں جتنی ہونی چاہیے۔ گھریلو اقتصادی سکڑاؤ اور کم ہوتے ہوئے بیرون ملک روزگار کے امکانات کے امتزاج نے ایک سنگین طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ ترسیلاتِ زر، جو پاکستان کی معیشت کے لیے اہم لائف لائن ہیں، گرنے کے خطرے سے دوچار ہیں، جس سے ملکی ادائیگیوں کے توازن کو مزید تناؤ کا سامنا ہے۔ صرف متحدہ عرب امارات سے سالانہ 5 بلین ڈالر سے زائد ترسیلات زر آتا ہے، پاکستان کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور غیر ملکی آمدنی پر منحصر گھریلو آمدنی کے لیے شدید خطرہ ہے۔ مزید برآں، گھریلو سطح پر روزگار کی تخلیق کی کمی اور بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر بڑھتی ہوئی غربت، سماجی بدامنی اور غیر یقینی کے بڑھتے ہوئے احساس کا باعث بنے گی۔ دوسری جانب ہم خود بھی اپنے دشمن ہیں بدقسمتی کبھی اکیلے نہیں آتی، پاکستانی کارکنوں کو اب خلیجی ممالک، خاص طور پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں اپنی ویزا درخواستوں کے مسترد ہونے کی وجہ سے ایک اور چیلنج کا سامنا ہے جو روزگار اور ترسیلات زر کے حوالے سے اہم ہے۔ بیروزگاری اور مہنگے ذرائع توانائی سے دوچار بہت سے پاکستانی بیرون ملک ملازمت کو اپنی واحد لائف لائن سمجھتے ہیں۔ تاہم، خلیج میں ویزا پالیسیوں میں سختی ان کی مایوسی، پاکستان کی معاشی پریشانیوں کو بڑھا رہی ہے اور اس کے غیر ملکی ترسیلات زر کے آمد کو مزید کم کر رہی ہے۔ ابو ظہبی میں پاکستانیوںکو ویزہ اور ملازمتوں کے حصول میں سخت مشکلات ہیں۔ گو ابوظہبی میں پاکستانی سفارت خانے نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ویزا پابندی کی کوئی تفصیلات شیئر نہیں کی گئیں۔ تاہم متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر فیصل ترمذی نے ویزا مسترد ہونے میں غیر معمولی اضافے کو تسلیم کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومتی سطح پر درست مہارت رکھنے والی افرادی قوت کی برآمد کے مواقع تلاش کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ پاکستان کو گزشتہ دو سال میں تاریخی برین ڈرین کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ بگڑتے ہوئے معاشی اور سیاسی حالات ہنر مند اور غیر ہنر مند کارکنوں کو بیرون ملک لے جا رہے ہیں۔ تکمیل تعلیم کے بعد ملک میں ملازمتوں کے فقدان کی وجہ سے نوجوانوں کی پہلی ملک سے باہر ملازمتیں حاصل کرنا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہمارے اوورسیز ملازمتوں کے ذمہ دار ادارے بالکل توجہ نہیں دیتے کہ وہ بیرون ملک ملازمتوں کے سلسلے میں جانے والی افرادی قوت کو متعلقہ شعبوں میں خاطر خواہ تربیت دے سکیں۔ ہمارے سفارت خانے، قو نصل خانے خاص طور خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب میں تعینات پاکستانی افرادی قوت کی کھپت کیلئے کوشش کرتے ہوں گے مگر جب انکے پاس کوئی تفصیلات ہی نہیں تو وہ کیسے افرادی قوت کی کھپت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے میں منظم گروہوںکی جانب سے خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب میں پاکستانی بھکاریوں اور غیر قانونی کام کرنے والے افراد کی کھپت میں اضافہ ہماری افرادی قوت کی مانگ میں کمی کا باعث ہے، چونکہ کون سا ملک اپنے ملک میں غیر قانونی کام کرنے والوںکو رہنے دیگا، عرب امارات نے تو ویزے ہمارے لیے بند کر دیئے ہیں، سعودی عرب نے نہایت شائستہ الفاظ میں حکومت پاکستان کو آگاہ کر دیا ہے کہ حج و عمرہ پر آنے والوں کی واپسی یقینی بنائی جائے اور نقص امن کا باعث بننے والوں پر سفری پابندیوں کے حوالے سے واضح قدم اٹھاتے ہوئے ایسے لوگوںکو سعودی عرب نہ بھیجیں۔ حکومت پاکستان کیلئے ایسے لوگوںکے متعلق تحقیقات کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب پاکستان کو زرمبادلہ بھیجنے والوں میں اول مقام رکھتے ہیں اگر حکومت نے فوری اس امر کی طرف توجہ نہ دی تو نقصان پاکستان کی معیشت کو ہو گا۔ ایک اہم معاملہ جس پر موجودہ حکومت کی توجہ کی فوری ضرورت ہے کہ بیرون ملک اپنے سفارت خانوں، قونصل خانوں کی کارکردگی پر توجہ دی جائے۔ آج جبکہ ہم قانون بنا چکے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی بھی ووٹ ڈال سکیں گے۔ سفارت خانوں، قونصل خانوںکی کارکردگی پر کڑی نظر رکھنا ضروری ہے چونکہ مختلف ممالک میں سفارت خانوں سے عوام کی شکایات
سفارتی عملے کیلئے نقصان دہ نہیں حکومت کی بدنامی کا سبب ہوتی ہیں۔ سمندر پار پاکستانی اسے حکومت کی ناقص کارکردگی سمجھتے ہیں سفارشیوںکی بھرتی سے تعبیر کرتے ہیں انکی حکومت پر بد اعتمادی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر سمندر پاکستانیوں نے ووٹ ڈالا تو حکومت کے حصے ’’ٹھینگا‘‘ آئیگا۔ عمران حکومت کے دور میں سمندر پار پاکستانی زیادہ خوش تھے کہ کوئی بھی شکایت ہو سفارت کاروں سے تو وہ شکایت کیلئے بنائے گئے ’’پورٹل‘‘ پر بھیجتے تھے اس پر کارروائی بھی ہوتی تھی اور سمندر پار پاکستانی خوش تھے، اب موجودہ حکومت نے ایسا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ اسے تحریک انصاف کے احتجاج اور معیشت کی درستی کیلئے اقدامات ہی چین نہیں لینے دے رہے مگر سمندر پاکستانیوں کو اس سے غرض نہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی بہتر دیکھ بھال حکومت کا فرض ہے۔ اندازوں کے مطابق 9 ملین سے زیادہ پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ پاکستانیوں کی سب سے بڑی کمیونٹیز عموماً مشرق وسطیٰ (جیسے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر)، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور کئی دوسرے ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ سالانہ مجموعی طور پر 25 بلین سے 34 بلین کے درمیان زرمبادلہ اور اس میں مزید اضافہ ممکن ہے۔ بہت سے لوگ بنک کے بجائے غیر قانونی ترسیل کے ذرائع بھی استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ بنکوںکی فیس ہے۔ حکومت کی جانب سے آج تک ایک نہ سمجھنے آنے والا قانون جس کے تحت بیرون ملک پاکستانی اپنے ہمراہ ایک سمارٹ فون بھی نہیں لا سکتا اسکی تشریح آج تک کوئی نہ کر سکا۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.