26اور 27نومبر کی درمیانی شب تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد سے منتشر کرنے کیلئے ریاست نے کارروائی کی تووہاں احتجاج کی غرض سے جمع رہنما و کارکنان چلے تو گئے لیکن اس کے بعد سوشل میڈیا فیک نیوز کی آماجگاہ بن گیا۔ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامی افراد نے یہ الزام عائد کرنا شروع کر دیا کہ ریاست نے نہتے افراد پر گولیاں چلائیں اور اس آپریشن میں تین سو سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے ‘ کئی افراد نے تو سیکڑوں اموات کی پوسٹس بھی شیئر کیں ۔ اس کے جواب میں حکومتی دعویٰ تھا کہ آپ کے پاس گولی چلانے یا اتنی شہادتوں کا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائو حقیقت واضح ہو جائے گی۔ تحریک انصاف کے رہنمائوںنے بھی اموات کے بارے میں متضاد بیانات دیئے‘ کسی نے آٹھ کاہندسہ دیا تو کوئی بیس کارکنوں کی شہادت کی اطلاع دے رہا تھا‘ لطیف کھوسہ نے ایک پروگرام میں 278کی تعداد ایسے بتائی جیسے ایک ایک کی گنتی کر کے انہیں بتایا گیا ہو۔ شیخ وقاص اکرم اور عمر ایوب نے پریس کانفرنس میں بارہ کارکنوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی۔ان متضاد دعوئوں میں حقیقت کہیں کھو گئی اور سچ الجھ کر رہ گیا۔ اب اگر کوئی کارکن اپنی جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھاتو اسے متنازع بنا دیا گیا ۔ویسے بھی اسلام آباد جیسے شہر میں ملکی و بین الاقوامی میڈیا کی موجودگی میں اگر سیکڑوں انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوتے تو یہ بریکنگ نیوز بن کر عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ بنا لیتی ۔ میں تو اس موقف کا حامی ہوں کہ ایک انسان کی جان بھی انتہائی قیمتی ہے اور بلاوجہ کسی انسان کی جان لینا سخت گناہ ہے لیکن فیک نیوز پھلانا بھی ناپسندیدہ عمل اور گناہ ہے ۔اب تو یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی سیاسی اور کور کمیٹی بھی فیک نیوز کا شکار ہو گئی ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ کور کمیٹی گروپ میں فیک نیوز شیئر کی گئیں۔ گروپ میں حلیم عادل شیخ نے اسد قیصر اور محمود اچکزئی پر حملے کی فیک خبر شیئر کی‘ انہوں نے خبر پر پارٹی سے رائے طلب کی اور تشویش کا اظہار کیا۔ سیمابیہ طاہر نے بین الاقوامی میڈیا کو بانی پی ٹی آئی سے ملنے کی اجازت کی خبر شیئر کی‘ انہوں نے یہ فیک نیوز شیئر کرتے ہوئے اسے کامیابی قرار دیا۔ پارٹی گروپ میں قاسم سوری کے بانی پی ٹی آئی کی جیل سے منتقلی کا ٹوئٹ شیئر کیا گیا۔ علی محمد خان نے ایسے ٹوئٹ کو فیک قرار دیتے ہوئے سیاسی کمیٹی و قائدین سے مشاورت کا کہا۔ پارٹی قائدین کا کہنا ہے کہ فیک نیوز پر مبنی بیانات سے پارٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے متعلق ایک ہفتے میں 6 فیک نیوز شیئر کی جا چکی ہیں۔ اسد قیصر نے اس حوالے سے کہا ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ فیک نیوز کہاں سے اور کیوں جاری ہو رہی ہیں۔
اسلام نے سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے آگے پھیلانے کو منع کیا ہے لیکن ہمارے ہاں خاص کر سوشل میڈیا جھوٹ اور پراپیگنڈہ کا موثر ہتھیار بن چکا ہے۔ بلاشبہ جعلی خبروں اور معلومات کے ذریعے افراتفری پیدا کرنا سکستھ جنریشن وارفئیر کی ایک شکل ہے۔ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے ذریعے امن و امان کی خرابی کے متعدد کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اس وقت امریکا‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت کئی ممالک سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے چیلنج سے نبرد آزما ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان میں بھی فائر وال کی تنصیب عمل میں لائی گئی ہے جس کا بنیادی مقصد فیک نیوز کے ذریعے امن و امان کی صورت حال خراب ہونے سے بچانا ہے۔ تمام مہذب ممالک میں کوئی شخص کسی شخص کے خلاف نفرت‘بے عزتی اور ہتک سے بھرا ہوا مواد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہیں کر سکتا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ دوبئی ہو‘سعودی عرب ہو یا پھر یورپ ، کوئی شخص کسی شخص کی بلااجازت ویڈیو بنا سکتا ہے اور نہ تصویر‘ اگر کوئی بنا لے اور دوسرے شخص کو پتا چل جائے تو وہ اس کے خلاف شکایت کر سکتا ہے اور اس کو سخت سزا ہوتی ہے۔
پاکستان میں فیک نیوز پھیلانا اور دوسروں کی پرائیویٹ ویڈیوز شیئر کرنا ایک نارمل عمل ہے‘ آپ کو سوشل میڈیا پر لاکھوں فیک نیوز اور لوگوں کی پرائیویٹ ویڈیوز مل جائیں گی۔ پاکستان میں ساڑھے اٹھارہ کروڑ موبائل فونز ہیںان میں سے 15 کروڑ اسمارٹ فون ہیں اور اتنے ہی تجزیہ کار‘مبصر اور اینکر بنے بیٹھے ہیں۔ ان 15 کروڑ لوگوں کو راہ چلتے جو بھی شخص نظر آجاتا ہے یہ اس کی پرائیویسی کی پروا کیے بغیر ویڈیو بنانے لگتے ہیں اور وہ شخص چند گھنٹوں میں اپنی عزت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔یہ کھیل اگر یہاں تک رہتا تو شاید برداشت ہو جاتا لیکن یہ اس سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ پاکستانی معاشرہ وائرل ہونے کے خبط میں مبتلا ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں اکائونٹس ہیں اور ان میں سے ہر شخص وائرل‘شیئرز‘ لائیکس اور سبسکرپشن کی دوڑ میں لگ چکا ہے اور اس دوڑ نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ہم لوگ وائرل ہونے کیلئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔اس بے لگام دوڑ کو روکنے کیلئے دو آپشن ہیں‘ ایک معاشرے کو اسی طرح اس کے حال پر چھوڑ دیں ملک میں انارکی پھیل جائے یا پھر ہم سخت قوانین بنائیں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ محب وطن حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر سخت قوانین بنانے چاہئیں۔ کسی بھی شخص کو کسی دوسرے شخص کی بلااجازت تصویر یا ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اگر کوئی شخص یہ حرکت کرے تو اس پر بھاری جرمانہ بھی ہونا چاہیے اور کم از کم دس سال قید بھی۔ملک میں فوری طور پر سائبر کورٹس بنا دی جائیں اور انہیں پابند کیا جائے کہ یہ چھ ماہ میں فیصلے کریں اور فیک نیوز بنانے اور پھیلانے والوں کو عبرتناک سزائیں دیں۔
موجودہ دور میں کسی بھی ملک میں حالات خراب کرنے کیلئے ہتھیاروں اور اسلحہ کے بجائے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہے، دشمن کا بڑا ہدف نوجوان ہوتے ہیں کہ کسی طرح انہیں اکساکر بغاوت پر آمادہ کیا جائے ۔ یہ سکستھ جنریشن وار ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک میں بیٹھ کر آپ دوسرے ملک کے حالات خراب کر سکتے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا اکائونٹس دنیا میں کہیں سے بھی چلائے جا سکتے ہیں۔ فیک نیوز اور گمراہ کن پراپیگنڈہ کے توڑ کیلئے سچ کو پوری قوت اور عملی طور پر سامنے لایا جائے تاکہ حقیقت منظر عام پر آسکے۔
تبصرے بند ہیں.