پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے

142

پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے سلسلے میں کینیڈا کے صدرچودھری جاوید گجر کا فون آیا کہ ان کے مسسی ساگا آفس میں کیک کاٹنے کی تقریب میں ضرور آئیں،فون بند ہوا تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ بھٹو کی مقبول پیپلز پارٹی آج کہاں کھڑی ہے ،ایوب خان سے اختلاف کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بہت جلد مغربی پاکستان کے عوام کے دلوں میں گھر کر گئے تھے، ایوب خان سے اختلاف کی وجہ بین الاقوامی تعلقات تھے،ایوب امریکہ نواز جبکہ بھٹو اشتراکیت پسند ہونے کی وجہ سے روس اور چین کے زیادہ قریب تھے، وہ ایک طرف عوام میں رسوخ رکھنے والے سیاستدانوں سے رابطے میں تھے تو دوسری طرف وہ تعلیم یافتہ اور ورکنگ کلاس کو متوجہ کرتے رہے،ایوب حکومت کی طرف سے دھمکیوں کے باوجود بھٹو نے راولپنڈی سے کراچی تک ٹرین مارچ کے ذریعے عوامی رابطہ مہم کا قصد کیا،بھٹو کی ٹرین جہاں جہاں پہنچی عوام کا جم غفیر امڈ آیا،ہر سٹیشن پر والہانہ استقبال نے ملک کے سیاسی مستقبل کا اسی ٹرین مارچ میں تعین کر دیا تھا،جون 1967ء میں ابھی پیپلز پارٹی کے باضابطہ قیام کا اعلان نہیں ہوا تھا، ذوالفقار علی بھٹو گاڑی میں صوبائی دارالحکومت لاہور سے فیصل آباد (جو اْس وقت لائلپور کے نام سے جانا جاتا تھا) کی جانب رواں دواں تھے اور شیڈول کے مطابق انہیں وہاں کسی عوامی جلسے سے نہیں بلکہ لائلپور بار سے خطاب کرنا تھا۔لائلپور، جو اْس وقت حقیقی معنوں میں مزدورں کا شہر تھا کے مزدور طبقہ تک جب یہ خبر پہنچی کہ بھٹو اْن کے شہر آ رہے ہیں تو وہ اتنی تعداد میں جمع ہو گئے کہ لائلپور، لاہور سڑک پر ٹریفک کا رواں رہنا محال ہو گیا، ہر طرف ،ماریں گے، مَر جائیں گے، بھٹو کو ہی لائیں گے،کی گونج تھی، بھٹو نے اس مجمعے سے ایک گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر خطاب کیا، اْن کی آواز زیادہ دْور تک نہیں جا پا رہی تھی کیونکہ وہاں موجود عوام کے نعروں کا شور بہت تھا،یہی وہ مقام تھا جہاں بھٹو نے ایوب خان کی کنونشن لیگ سے علیٰحدگی کا رسمی اعلان کیا اور بعدازاں 30 نومبر 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔
1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے پنجاب،سندھ میں خاطر خواہ کامیابی سمیٹی،تاہم مشرقی پاکستان میں ان کو ایک بھی نشست نہ ملی کیونکہ انہوں نے وہاں کسی امیدوار کو ٹکٹ ہی نہیں دیا تھا، انتخابی کامیابی کے بعد ہی ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھاکہ پنجاب اور سندھ کی چابیاں میرے پاس ہیں اور اب اگر گذشتہ دہائی میں ہونے والے دو عام انتخابات (2013ئ، 2018ئ) کی بات کی جائے تو اِس جماعت کے پاس پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 297 نشستوں پر کھڑا کرنے کے لیے امیدوار بھی پورے نہیں تھے، پیپلز پارٹی کی پنجاب کی انتخابی سیاست میں تنزلی کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ دنوں کہا کہ پی پی پی کی ابتدا پنجاب سے ہوئی اسے باقاعدہ ایک سازش کے ذریعے پنجاب سے باہر کیا گیا،بلاول، جنہوں نے لاہور میں قومی اسمبلی کے ایک شہری حلقے سے بھی عام انتخابات میں حصہ لیا تھاکہتے ہیں پنجاب کل بھی بھٹو کا تھا اور وہ اسے دوبارہ بھٹو کا پنجاب بنائیں گے مگر اپنی نشست بھی نہ جیت سکے،سیاسی تاریخ کے طالب علم کہتے ہیں، 1970ء میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ غریب اور درمیانے طبقات کے لئے انتہائی کشش کا حامل تھا اور اسی نعرے نے پیپلز پارٹی کو ایک مقبول جماعت بنایا تاہم پارٹی کی سیاسی تاریخ میں ٹرننگ پوائنٹ 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات بنے کیونکہ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور ان میں حصہ نہ لیا، بعدازاں بینظیر بھٹو نے بھی انتخابات کے بائیکاٹ کے اس فیصلے کو بڑی سیاسی غلطی قرار دیا تھا،بینظیر کی 86ء میں وطن واپسی پر لاہور میں ہونے والا استقبال تاریخی اور فقیدالمثال تھا ، استقبالی جلوس کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ پنجاب ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی گود میں چلا گیا ہے مگر ضیائی آمریت پیپلز پارٹی کیلئے سپیس ختم کرتی رہی،مرکزی رہنمائوں نے پارٹی چھوڑی بلکہ الگ سے پارٹیاں بھی تشکیل دے لیں ، مصطفی کھر ، مصطفی جتوئی،حنیف رامے نے الگ پارٹیوں کا اعلان کیا مگر عوامی پذیرائی نہ ملی،88ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کوسادہ اکثریت سے بہت کمزور حکومت بنانے کا موقع ملا،مگر پنجاب اسلامی جمہوری اتحاد کے حصے میں آیا یہ اتحاد پیپلز پارٹی کے مقابل اسٹیبلشمنٹ نے تشکیل دیا،سندھ سے پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کیلئے ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی گئی پنجاب میں نواز شریف نے مرکزی حکومت کیلئے بہت مشکلات کھڑی کیں نتیجے میں صرف اٹھارہ ماہ بعد بینظیر حکومت کو چلتا کیا گیا۔
1985ء کے الیکشن کے بعد پنجاب کا سوشل لینڈ سکیپ بدل گیا اور ایسے سیاست دانوں کی ایک کلاس (الیکٹیبلز) پیدا ہوئی جن کے لئے کسی سیاسی جماعت کا پلیٹ فارم موجود ہونا ضروری ہی نہ رہا،مسلم لیگ ن اس بدلتے سوشل لینڈ سکیپ اور الیکٹیبلز کی مارکیٹ کو سمجھ گئی مگر پنجاب میں پیپلز پارٹی اسے نہ سمجھ سکی،وقت کے ساتھ پیپلز پارٹی کلاس بیسڈ پارٹی کے بجائے سافٹ سندھی نیشنلزم کو لے کر آگے بڑھی اور ایک خطے سندھ تک محدود ہوگئی اور اگر آج سندھ میں پی پی پی کے کسی ووٹر سے بات کریں گے تو وہ فخریہ انداز میں بتائے گا کہ پیپلز پارٹی سندھ کی اور سندھ والوں کی جماعت ہے، مگر اس شفٹ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس جماعت کی پنجاب میں مقبولیت بتدریج کم ہوتی گئی، ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی حد تک بینظیر نے لیڈر شپ کے حوالے سے پیدا ہونے والے خلا کو پْر کیا۔پنجاب کی حد تک پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں بڑا زوال تحریک انصاف کے آنے کے بعد آیا کیونکہ اس جماعت کے نعروں نے بھی ورکنگ اور پڑھی لکھی کلاس کے افراد کو متاثر کیا چنانچہ جو بچے کھچے پیپلز پارٹی کے رہنما پنجاب میں رہ گئے تھے وہ ان نعروں کی بدولت پی ٹی آئی کی جانب سدھار گئے۔
1977 ء کے بعد ہونے والے ہر الیکشن میں کسی نہ کسی دوسری سیاسی جماعت کو سپیس دینے کے لیے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں توڑا گیا،یہ محض اتفاق نہیں کہ 1970ء کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت نہ بنا سکی، 80 ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے خلاف آئی جے آئی بنائی گئی،پنجاب میں ضیا ء کی سوچ سے مطابقت رکھنے والے لوگوں کو مسلط کیا گیا، ایسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو بھرپور طریقے سے ہمیشہ سپورٹ کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اسٹیبلشمنٹ نے متعدد مواقع پر بعض سیاستدانوں کو مجبور کیا کہ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف جائیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بعد آنے والی پارٹی قیادت بشمول بے نظیر کے طرزِ سیاست میں فرق بھی اس کی ایک وجہ بنی،بھٹو آزاد خارجہ پالیسی کے خواہاں تھے، اْن کی دبنگ شخصیت تھی اور اْن کا طرزِ سیاست ان کی وفات کے بعد کمپرومائز ہو گیا، پنجاب کے لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت جیسا سحر بعد میں پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر میں نظر نہ آیا،بھٹو کا دبنگ انداز پنجاب والوںکو پسند تھا،مگرپیپلز پارٹی کے پاس اِس وقت پنجاب کے ووٹرز کو متاثر اور متوجہ کرنے کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔

 

تبصرے بند ہیں.