تاریخ بہت ظالم ہے بلکہ اس قدر ظالم ہے کہ اس کے ہاں معافی کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ اس کے ہاں اپنائیت، اقربا پروری، نوازے جانے کو کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس کی شکل کو مسخ تو کیا جا سکتا ہے مگر مٹایا نہیں جا سکتا۔ اس کے اوراق پھاڑے تو جا سکتے ہیں مگر ان سے سیاہی نہیں چاٹی جا سکتی۔ اسے دریا برد تو کیا جا سکتا ہے مگر مورخ کے سینوں سے نہیں نکالا جا سکتا۔ تاریخ اچھے کو اچھا اور بُرے کو بُرا ثابت کر کے دکھاتی ہے۔ تاریخ ظالم کو ظالم اور کرپٹ کو کرپٹ ثابت کر کے رہتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ محمد بن عرو یمن کا گورنر بن کر شہر میں داخل ہوا لوگ استقبال کے لیے کھڑے ہوئے تھے لوگوں کا خیال تھا کہ نئے گورنر لمبی چوڑی تقریر کریں گے، محمد بن عرو نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی۔ وہ جملہ یہ تھا ’’لوگو یہ میری سواری میری ملکیت ہے اس سے زیادہ لے کر میں واپس پلٹا تو مجھے چور سمجھا جائے‘‘۔ یہ عمر بن عبدالعزیزؒ کا سنہرا دور تھا، محمد بن عرو نے یمن کو خوشحالی کا مرکز بنایا۔ جس دن وہ اپنی گورنری کے ماہ و سال پورے کر کے واپس پلٹ رہا تھا۔ لوگ ان کے فراق پر آنسو بہا رہے تھے۔ لوگوں کا جم غفیر موجود تھا۔ لوگوں کو امید تھی کہ آپ لمبی چوڑی تقریر کریں گے۔ محمد بن عرو نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی، وہ جملہ یوں تھا ’’لوگو یہ میری سواری میری ملکیت تھی، میں واپس جا رہا ہوں میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔ لوگوں نے دیکھا کہ آپ خالی ہاتھ ہی گئے۔
انتظار حسین اردو ادب کے بڑے فکشن نگار تھے۔ آخری عمر تک کالم نگاری سے جڑے رہے۔ ان کی کتاب ’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘ کے مطابق بہادر شاہ ظفر کا دستر خوان ملاحظہ فرمائیں، انکے چاولوں میں یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نکتی پلاؤ، نور محلی پلاؤ، کشمش پلاؤ، نرگسی پلاؤ، لال پلاؤ، مزعفر پلاؤ، فالسائی پلاؤ، آبی پلاؤ، سنہری پلاؤ، روپہلی پلاؤ، مرغ پلاؤ، بیضہ پلاؤ، انناس پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، بریانی پلاؤ، سالم بکرے کا پلاؤ، بونٹ پلاؤ، کھچڑی، شوالہ (گوشت میں پکی ہوئی کھچڑی) اور قبولی ظاہری۔ اب آتے ہیں سالنوں کی طرف۔۔۔ سالنوں میں امید ہے میری طرح آپ نے یہ نام بھی نہ سنے ہوں گے۔ قلیہ، دوپیازہ، ہرن کا قورمہ، مرغ کا قورمہ، مچھلی، بینگن کا
بھرتا، آلو کا بھرتا، چنے کی دال کا بھرتا، بینگن کا دلمہ، کریلوں کا دلمہ، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال، سیخ کباب، شامی کباب، گولیوں کے کباب، تیتر کے کباب، بٹیر کے کباب، نکتی کباب، خطائی کباب اور حسینی کباب شامل ہوتے تھے۔ روٹیوں کی یہ اقسام شاید آپ نے انٹرنیٹ پر بھی نہ دیکھی ہوں۔ چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، روغنی روٹی، خمیری روٹی، گاؤ دیدہ، گاؤ زبان، کلچہ، غوصی روٹی، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، نان، نان پنبہ، نان گلزار، نان تنکی اور شیر مال۔ میٹھے کی طرف نظر ڈالئے متنجن، زردہ مزعفر، کدو کی کھیر، گاجر کی کھیر، کنگنی کی کھیر، یاقوتی، نمش، روے کا حلوہ، گاجر کا حلوہ، کدو کا حلوہ، ملائی کا حلوہ، بادام کا حلوہ، پستے کا حلوہ، رنگترے کا حلوہ۔ مربے ان قسموں کے ہوتے تھے۔ آم کا مربہ، سیب کا مربہ، بہی کا مربہ، ترنج کا مربہ، کریلے کا مربہ، رنگترے کا مربہ، لیموں کا مربہ، انناس کا مربہ، گڑھل کا مربہ، ککروندے کا مربہ، بانس کا مربہ۔ مٹھائیوں کی اقسام یہ تھیں جلیبی، امرتی، برفی، پھینی، قلاقند، موتی پاک، بالو شاہی، در بہشت، اندرسے کی گولیاں، حلوہ سوہن، حلوہ حبشی، حلوہ گوندے کا، حلوہ پیڑی کا، لڈو موتی چور کے، مونگے کے، بادام کے، پستے کے، ملاتی کے، لوزیں مونگ کی، دودھ کی، پستے کی بادام کی، جامن کی، رنگترے کی، فالسے کی، پیٹھے کی مٹھائی اور پستہ مغزی یہ مزیدار رنگا رنگ کھانے سونے اور چاندی کی قابوں،
رکابیوں، طشتریوں اور پیالوں پیالیوں میں سجے اور مشک، زعفران اور کیوڑے کی خوشبو سے مہکا کرتے تھے۔ چاندی کے ورق الگ سے جھلملاتے تھے۔ کھانے کے وقت پورا شاہی خاندان موجود ہوتا تھا۔ یہ تھے وہ حالات جہنوں نے قوموں کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔ غریب عوام کا جینا دو بھر کر دیا تھا۔ اے میرے عزیز ہم وطنو! تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔ اپنے وزیراعظموں، ججوں، بیوروکریٹوں، سیاستدانوں، جرنیلوں اور سرکاری افسران کے آنے جانے والے دنوں کا تقابل کیجیے اور بس اپنی فکر کیجیے۔۔ بقول جاوید رامش
خزاں ہر سال آتی ہے مگر اِس بار تو لوگو
فقط پتے نہیں ٹوٹے گِرے ہیں آشیانے بھی
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.