میر انیس کے 150 ویں یومِ وفات پر

70

8 دسمبر کو لاہور میں میر انیس کے 150 ویں یوم وفات پر عالمی میر انیس کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ بزم راحت سخن نے لاہور میں رثائی ادب کے فروغ کا جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ اسی کی ایک کڑی ہے۔ انیس شناسی کے لیے اس عالمی کانفرنس کو ایک اہم قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ مرثیہ اردو کی طرح کئی زبانوں کی مقبول صنفِ سخن رہا ہے جس نے ہر دور میں ترقی کی ہے۔بعض محققین کے مطابق مرزا سودا نے شعوری طور پر مرثیہ کو ایک ادبی صنف کی حیثیت سے ترقی دینے کی کوشش کی۔ ان کے بعد میر ضمیر، میرخلیق، میاں دلگیر اور مرزا فصیح کے ہاں اس کا ارتقا نظر آتا ہے۔مرثیے کی ہیئت میں جو تبدیلیاں ہوئیں انہوں نے اس صنفِ سخن کو ایک ایسی بلندی پر پہنچا دیا جہاں مرثیہ کو دیکھ کر لوگوں کے ذہن میں ایپک اور ٹریجڈی کا خیال آنے لگا۔انیس نے مرثیے کی محدود دنیا میں اعلیٰ نظموں کی وہ شان و شوکت پیدا کی جو دوسرے ملکوں کے سرمایہ شاعری میں ایک بیش بہا مقام رکھتی تھیں۔

جن لوگوں نے مرثیے میں ایپک کی خصوصیات تلاش کیں ان کے پیش نظر یقینا ایپک میں معنوی حیثیت سے اعلیٰ مقصد، بلند اخلاقی، خیر و شر کی کشمکش، بڑے پیمانے پر بڑی طاقتوں کے تضاد، اخلاق کے اچھے اور بُرے نمونوں کی نمائش کا پایا جانا ہو گا۔ حالانکہ اردو کے مرثیہ گو ایپک سے براہ راست واقف ہی نہیں تھے۔ خود انیس بھی سکندر نامہ، شاہنامہ یا حمل حیدری جیسی نظموں سے واقف ہوں گے لیکن مہا بھارت، رامائن، ایلیڈ، اوڈیسی، اینیڈ، ڈوائین کامیڈی اور پیراڈائز لاسٹ سے واقفیت نہیں رکھتے ہوں گے۔
اردو میں مرثیہ کی تنقید نے خاطر خواہ ترقی نہیں کی۔ اسے آدرشی پہلوؤں کی نذز کر دیا گیا۔ اردو ادب کی تمام شعری اصناف جو موضوعات کے لحاظ سے مذہبی یا نیم مذہبی ہیں ان کے ساتھ ناقدین کا یہی رویہ نظر آتا ہے۔ میر انیس کا مرثیہ واضح کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی تشبیہات کے داخلی نظام کو از سر نو تشکیل دیا ہے اور استعاروں کو وسعت دیتے ہوئے بعض مقامات پر لا محدود کر دیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ایک مضمون میں ملارمے پر بات کرتے ہوئے استعاروں کے لامحدود ہونے کی طرف اشارہ کیا تو مجھے میر انیس کا خیال آیا۔ انیس کی متخیلہ نے یہ کام انگریزی شعرا سے بہتر طور پر انجام دیا ہے۔ اردو تنقید جب جب ان کے فن کے گہر پر نظر کرے گی انیس کی کئی فنی جہات کھل کر سامنے آئیں گی۔

عام طور پر قاری انیس کے خیال کی تقلید کرنے پر اکتفا کرتا ہے ان کے تخلیقی تجربے کو قبول نہیں کرتا۔ انیس نے اردو شعریات میں پائی جانے والی تخلیقی توانائی سے شعر کے تلازماتی پوٹینشل کو تبدیل کیا ہے۔ انہوں نے علامتوں کے مربوط خاکے سے مرثیے کی فضا اس طرح قائم کی ہے کہ کوئی بھی مضمون ان گنت خارجی عناصر کا احاطہ کرنے کے باوجود اسی فضا کا لازمی حصہ نظر آتا ہے۔

انیس نے تلمیحات کو ان کی متصورہ حدود سے بڑھا کر برتا ہے۔ یہی ہنر ان کے ہاں Fabricated mythology میں بھی نظر آتا ہے۔

انیس کا metephor نیوکلیائی کے طور پر اپنے معاون عناصر سے ملتا ہے۔ اس کا مجموعی تاثر اسی طرح کے ہر نیوکلیائی کی انفرادی صلاحیت سے قائم کیا گیا ہوتا ہے جو تدریجی طور پر شعر کے اختتام تک مضمون کو climax تک لے کر جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ میر انیس نے لفظ کی ظاہری حالت، اس کی علامتی صلاحیت اور شعر میں اس کی ساختیاتی حیثیت کو بھی مد نظر رکھا ہے۔ وسیع تر اور نادر لفظیات کے باوجود ان کے اشعار غرابت کا شکار نہیں ہوتے۔شعر کی محض بیانیہ فارم سے ہٹ کر اس کی تصویری پیش کاری اور ڈرامائی اظہار زندگی کے کئی مظاہر کو شعر کر دینے کا معجزہ دکھاتی ہے۔ یہ انیس کے شعر میں موجزن Kinetic energy ہے جو ایک مہم کو نئے سرے سے قاری کے سامنے پیش کرتی ہے اور تاثرات کے ذریعے سے اسے کچھ نتائج تک پہنچاتی ہے۔ لہٰذا یہ موضوعاتی سطح پر بہت سے ایسے حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے جو ہماری مادی تاریخ میں بظاہر نظر نہیں آتے۔ شاعری کا اصل منصب یہی ہے۔ عام طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کسی عام مرثیہ گو اور میر انیس میں یہ فرق ہی بیان کرنے کو کافی ہے کہ انیس نے الفاظ کے تخلیقی جوہر کو گمان کی حد تک کامیابی سے برتا ہے۔

اردو مرثیہ جدید اور مابعد جدید تحریکوں سے متاثر ضرور ہوا ہے لیکن اپنی روایتی جمالیات اور فنی محاسن کو ساتھ لے کر آگے بڑھتا رہا ہے۔ کراچی کی طرح لاہور میں بھی مرثیہ گوئی کی روایت نے ترقی کی ہے۔ بزمِ راحت سخن کی نشستوں نے لاہور کے ادبی حلقوں میں فروغِ مرثیہ کی نئی طرح ڈالی ہے۔ کاظم ناصری صاحب نے تحت الفظ خوانی کے فن کو نکھارنے میں پوری صلاحیتیں صرف کی ہوئی ہیں۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو آغا جون حیدر اور کمال زیدی صاحب کی صورت میں با صلاحیت اور مخلص ٹیم میسر آئی ہے۔ بزم راحت سخن میں تازہ گو شعرا بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کا تعلق ایسے خانوادوں سے ہے جو ہندوستان کی شعری روایات کے امین ہیں۔ ان میں رضوان جعفری، حماد رضا فطرس، سید باقر زیدی، احسان علی حیدر کے نام شامل ہیں۔ نوجوان شعرا میں سید باقر زیدی کی قد آور شخصیت کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔

میر انیس کانفرنس میں ڈاکٹر اسد اریب اور ڈاکٹر ہلال نقوی کی شرکت یقینا رثائی ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے اہم ہو گی۔ ڈاکٹر ہلال نقوی کی رثائی ادب کے حوالے سے خدمات عصر حاضر میں سب سے زیادہ اہم اور لائقِ تحسین ہیں۔ اس کانفرنس میں میر انیس کے فکر و فن پر تحقیقی مقالے پیش کیے جائیں گے ساتھ ہی تجزیاتی اور تنقیدی گفتگو بھی کی جائے گی۔ ڈاکٹر اسد اریب صدارتی خطبہ دیں گے جب کہ ڈاکٹر ہلال نقوی انیس کے فن پر اظہارِ خیال کریں گے۔ اس کانفرنس کی ایک اور خوبی کلام انیس کی ترنم اور تحت الفظ میں پیش کش ہے۔ کاظم ناصری تحت الفظ میں مرثیہ پڑھیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ کراچی کی طرح لاہور کا دبستان بھی رثائی ادب کی تخلیق اور ترویج میں بے مثال خدمات انجام دیتا رہے گا۔

تبصرے بند ہیں.