جب پاکستان آزاد ہوا تو یہ محض ایک ملک نہیں تھا بلکہ دنیا کے تمام ممالک میں ایک منفرد حیثیت سے معرضِ وجود میں آیا اور دنیا کا کوئی دوسرا ملک انفرادیت کا یہ اعزاز نہیں رکھتا۔ پاکستان ایک جمہوری جد و جہد کے نتیجے میں پیدا ہوا اور مسلمانوں کے سیاسی اور معاشرتی نظریات کی اساس پر قائم ہوا۔ اس طرح مسلمانوں کی تاریخ میں یہ پہلا ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور اسلام کے نظریات اور مسلمانوں کی تہذیب اور سیاسی و فکری تمدن کی حفاظت اور فروغ اس کا بنیادی مقصد ہے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے برِ صغیر کے مسلمانوں کی قیادت کی اور دنیا بھر کے دشمنوں اور حاسدوں کے باوجود کامیابی حاصل کی۔ دنیا حیرت زدہ رہ گئی اور ثقہ دانشوروں و مؤرخوں نے لکھا کہ عالمی سطح کے لیڈروں نے دنیا بھر میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں لیکن ایک بالکل نیا ملک صرف جناح نے پاکستان کے نام سے بنایا۔ اس سے قبل ایسا متمول اور آزاد ملک اور کوئی نہیں تھا۔ مسلمان ممالک کئی تھے لیکن وہ سب پہلے سے موجود تھے ان کے باشندوں نے اسلام بعد میں قبول کیا۔ اسلام کا مرکز جزیرہ نما عرب بھی پہلے سے موجود تھا۔ اسی طرح دوسرے ممالک بھی پہلے سے اپنا نام رکھتے تھے لیکن ہر پہلو سے نیا ملک صرف پاکستان ہے اور یہ منفرد تاریخی کارنامہ جناح کی قیادت میں برِ صغیر کے مسلمانوں نے سرانجام دیا۔ اپنے ملک کے لئے زمین دوسروں سے حاصل کی اور نئی سرحدوں کے ساتھ ایک ملک قائم کر دیا۔
بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس انفرادی اہمیت کے حامل نئے قائم ہونے والے ملک کے اربابِ اختیار نے ان نظریات و مقاصد اور اس کی اساس کو بھلا دیا جو اس ملک کی اصل طاقت اور بنیاد تھے۔ یہ سب پرلے درجے کے خود غرض اور مطلب پرست لوگ رہے اور اپنے مقاصد و نظریات کو پرے کر دیا۔ جمہوری طریقے سے حاصل کیے گئے ملک کے حوالے سے قائد کا وژن تھا کہ یہ جمہوری طریقے سے چلایا جائے گا لیکن یہاں پہلے چند سال کو چھوڑ کر یہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز تھی اور نہ آج ہے۔ اس کا ایک بازو کٹ گیا اور اس کی بنیادی وجہ اس کے طاقتور افراد کی ملک کے نظریات اور مقاصد سے مکمل روگردانی تھی۔ آج یہ ملک دہشت گردی کی یلغار کی زد میں ہے اور دہشت گردی کی وارداتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں رحم کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے انتہائی نالائق، نااہل اور ذاتی مفادات کے رسیا اربابِ اختیار نے ملک کو دشمنوں کے سامنے پیش کر دیا کہ جو چاہیں اس سے کرتے رہیں، اس کی بنیادی وجہ میری رائے میں یہاں قانون و آئین سے روگردانی ہے۔ آج یہ ملک صرف طاقتور لوگوں کی آماجگاہ ہے، ایسے لوگ جن کے پاس بے انتہا طاقت ہے اور وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں جو بھنور پیدا ہوا ہے اور اس کی شدت میں جو اضافہ ہوا ہے اس میں بیرونی اور اندرونی ہاتھوں کی شناخت کچھ مشکل نہیں رہی۔اگر پاکستان کی 77 سالہ تاریخ کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ پاکستان کو جس فتنے نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ ہے ہوسِ اقتدار، ہوسِ زر، ہوسِ طاقت، اختیار کی زیادتی کی خواہش، حکمرانی کی چاہت اور حکومت میں آنے کے بعد حکومت نہ چھوڑنے کے جذبے کی زیادتی، جو ایک دفعہ اقتدار میں آ جاتا ہے وہ اقتدار اس وقت تک چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا جب تک اقتدار اسے نہ چھوڑے ، پھر جو ایک دفعہ اختیار اور طاقت کا مزہ چکھ لیتا ہے وہ دوبارہ اسے حاصل کرنے کی آرزو کرنے لگتا ہے اور نتائج سے غافل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں طاقتور لوگوں کی جائز ناجائز باتیں ماننا پڑتی ہیں جب کہ ان کو آزادانہ حکومت کرنے کا اختیار بھی نہیں ہوتا۔ حکم کسی اور کا چلتا ہے یہ صرف اپنے لب ہلاتے ہیں لیکن یہ اتنے میں ہی خوش رہتے ہیں کہ وہ حکمران ہیں بے شک کٹھ پتلی ہی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کو آلہ کار مل جاتے ہیں جو سیاسی لیڈروں کی حکومت کو ختم کر دیتے ہیں۔ کبھی بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کر کے پھانسی دے دی جاتی ہے تو کبھی بینظیر کو فارغ کر دیا جاتا ہے تو کبھی نواز شریف کی حکومت ختم کر دی جاتی ہے، کبھی عمران خان کے خلاف سازش کر کے اسے نکال دیا جاتا ہے، کبھی وزیر اعظم فارغ یا نااہل کرا دیئے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیا ہے یہ کون کر رہے ہیں اور وہ کیوں ایسا کر رہے ہیں وہ جمہوری حکومتوں کو چلنے کیوں نہیں دینا چاہتے۔
پاکستان میں سیاست عوام، ملک یا قوم کی خدمت کے لیے نہیں کی جاتی بنیادی طور پر یہ اقتدار کی رسی کشی ہوتی ہے۔ حصولِ اقتدار کے بعد اگر کسی کے دل میں آ جائے تو ملک و قوم کے لئے بھی کچھ کر دیتا ہے ورنہ اس کا سارا وقت اپنے اقتدار کو تحفظ دینے میں ہی گزر جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ صورت کب پیدا ہو گی کہ جس کو عوام ووٹ دیں کچھ بھی ہو جائے انہیں پانچ سال پورے کرنے دیئے جائیں لیکن یہاں پتہ نہیں کون ہے جو ہر بار چلتی حکومت کو ختم کرا دیتا ہے اور پھر اپنی پسند کے حکمران لانے کے لئے دھاندلی کرا دیتا ہے اور اچھی خاصی حکومت کو فارغ کر کے ایک بار پھر ملک کو صفر پر لے جایا جاتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں اگر کوئی حکمران صحیح حکومت بھی نہیں کر رہا ہے تو اس کا احتساب بھی عوام کو ووٹ سے کرنے دیا جائے تو ملک خود بخود اپنے راستے متعین کر لے گا۔ اصولی طور پر جس پارٹی کو بھی عوام منتخب کرنا چاہیں آزادی سے کر لیںاور انہیں پورا وقت ملنا چاہئے تا کہ وہ اپنے منشور اور ایجنڈے پر عمل کر کے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ جب انتخابات ہو جائیں تو آنے والی ا سمبلی اس سلسلے میں جو راستہ اختیار کرے یہ اس کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہئے۔ خصوصاً اداروں کو چیف ایگزیکٹو کے احکامات ماننے تک اپنے آپ کو محدود کرنا چاہئے، معاملات میں مداخلت سے اجتناب کرنا چاہئے۔
تبصرے بند ہیں.