زر مبادلہ بھیجنے کا صلہ

63

ہر عہد میں بھاری بھر زر مبادلہ بھیجنے اور قومی معیشت کو سہارا دینے والے اوورسیز ہم وطن سنہرے خواب دل میںسجائے اپنی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں، جب انہیں معلوم ہو کہ ان کے گھروں کو جانے والے سارے راستے امن و امان کو بر قرار رکھنے کے لیے بند کر دئیے گئے ہیں تو انکے کیا جذبات ہوں گے، ان کے دل کی تو دنیا ہی بدل جائے گی، یہ ’’نمانے‘‘ نئی پسوڑی میں پڑ جائیں گے، ائر پورٹ پرسارے خواب ایک طرف رکھتے ہوئے اس فکر میں مبتلا ہو جائیں گے کہ اگلا سفر کس طرح طے ہونا ہے، مدتوں بعد آنے کے باوجود وہی سامراجی نظام کا ماحول جب ان کے سامنے ہو تو ان کا افسردہ ہونا یقینی ہے، وہی پکڑ دھکڑ، خون خرابہ، لاٹھی چارج، آنسو گیس، گولی اورگالی کی سرکار کا منظر انہیں سوچنے پر مجبور کرے گا، انہیں تو زعم تھا کہ اپنی خون پسینہ کی کمائی سے زر مبادلہ وہ بھیجتے رہے اس سے نہ صرف ریاست کو مالی آسودگی حاصل ہو گی بلکہ یہ سیاسی طور پر بالغ بھی ہو گی، قانون کی حکمرانی کا ڈنکا بج رہا ہو گا، ہر طرف امن ہی امن ہو گا، جب ٹیکسی والے نے گھر پہنچانے کے لیے بھاری بھر کرایہ طلب کیا ہو گا، تودل ہی دل میں ارباب اختیار کو کوسنے دے رہے ہوں گے، کہ وہ کیسی ریاست کے شہری ہیں، جہاں ایک سیاسی جماعت دارالحکومت پر چڑھ دوڑنے کے لیے تیار ہے تو دوسری جماعت وہاں آنے سے روکنے پر بضد ہے، یہ تماشا گذشتہ کئی سال سے لگا ہوا ہے، جس میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا عام شہری ہے۔ جب ان کے علم میں آئے گا راستے بند ہونے کی اذیت صرف ان کا ہی مقدر نہیں بلکہ عام فرد کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے، تو زر مبادلہ بھیجنے کی ’’قومی خدمت‘‘ پران کا اظہار تاسف لازم ہے۔

دنیا بھر کے احتجاج کا منظر ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم جائے گا، جہاں لاکھوں کی تعداد میں پُرامن شہری اپنے مطالبات کے حق میں شاہراہوں پر موجود ہوتے ہیں مگر معمولات زندگی کسی مقام پر بھی رکتے دکھائی نہیں دیتے۔ شائد اسکی بڑی وجہ وہاں کی سیاسی جماعتوں کی اپنے کارکنان کی تربیت بھی ہے، جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا گناہ سمجھتے ہیں مگراپنے سیاسی حق کو پُر امن انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنے مطالبات اور آواز متعلقہ اداروں تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے نصیب میں ایسی تربیت یافتہ سیاسی جماعتیں کہاں؟ کیا انکی حیثیت پریشر گروپ کی سی ہے؟ گزشتہ چند سال سے جس انداز کی انتقامی سیاست متعارف کرائی گئی ہے، اس کی کوکھ سے تشدد ہی برآمد ہو رہا ہے، اسکی بدترین شکل 9 مئی کے واقعات کی صورت میں سامنے آئی ہے۔

ہمارے ہاں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پہلا سہارا تو سامراجی عہد کی دفعہ 144 کے نفاذ سے لیا جاتا ہے، ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن جمہوری عہد میں بہترین راستہ تو مذاکرات ہی کا سمجھا جاتا ہے، امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری صرف سرکار کی نہیں ہوتی بلکہ اپوزیشن کی بھی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعہ ان ایشوز پر بات کرے جس پر اپوزیشن کو تحفظات
ہیں، موجودہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی کثیر تعداد موجود ہے، مگر وہ اس جمہوری فورم کو استعمال کرنے سے نجانے گریزاں کیوں ہے، وہ جماعت جس نے اپنے لیڈرکی رہائی کے لیے آخری کال دی ہے، اس کے جمہوری رویہ کا عالم یہ ہے کہ وہ ’’غیر جمہوری قوتوں‘‘ سے تو بات چیت پر آمادہ ہے لیکن ’’سرکار‘‘ کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ ناقدین کہتے ہیں، مذکورہ قوتوں سے مذاکرات کا مقصد پابند سلاسل شخصیت کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنا، سزا سے بچانا ہے، جو ماضی میں پارٹی کے ’’سہولت کار‘‘ بھی رہے، انہیں ریلیف دینے کا مقصد 9 مئی کے مجرموں کو رہائی کا پروانہ دینا ہے، احتجاج کے شرکاء نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، اطلاعات ہیں کہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار ان کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔

تاجر برادری نے احتجاجات سے عاجز آ کر اسلام آباد کی عدالت عالیہ سے رجوع کیا جس نے وفاقی صدر مقا م کی حدود کے اندر ہمہ قسم کے مارچ اور احتجاج پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا ہے، ایک ذمہ دار جماعت کے طور پر اس کی لیڈر شپ کو اس فیصلہ کا احترام کرنا چاہیے تھا، اور جس مقام پر احتجاج کے لیے سرکار اور اپوزیشن میں معاملہ طے ہوا تھا، وہاں پُرامن پڑائو ڈال اور احتجاج ریکارڈ کرا کر ایک ذمہ دار قیادت کا تاثر دیتے، اس وقت احتجاجی جماعت کی باگ ڈور وکلاء کے ہاتھ میں ہے، جن کا کوئی کردار سامنے نہیں آ رہا ہے۔ اس گروہ کے ڈی چوک پہنچنے کے خبط نے ہر مسافر اور شہری کو پریشان کر رکھا ہے، عوام اس ناروا سلوک کی وجہ سے سرکار پر تبرہ بھیج رہے ہیں تو صلواتیں احتجاجی پارٹی کو بھی سنائی جا رہی ہیں۔
چند ماہ قبل جماعت اسلامی کی قیادت نے ڈی چوک پر مہنگی بجلی کے خلاف پُر امن دھرنے کا اعلان کیا جو خالصتاً عوامی مسئلہ ہے مگر سرکار نے انہیں لیاقت باغ دھرنے پر آمادہ کیا، جس پر جماعت کی قیادت بھی راضی ہو گئی، دھرنے کے باوجود معمولات زندگی چلتے رہے ریاستی امور میں کوئی خلل نہیں پڑا، سرکار ی وفد نے بات چیت کی اور مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ آخری کال پر سرکار نے سوال اٹھایا ہے کہ وہ کون سے خفیہ ہاتھ ہیں جو اس پارٹی کو عین اِس وقت احتجاج پر اکساتے ہیں جب کسی نہ کسی بیرونی سربراہ کا دورہ اسلام آباد میں شیڈول ہوتا ہے، اور بہت سے معاہدہ جات متوقع ہوتے ہیں، اس کا جواب تو احتجاجی پارٹی کی قیادت پر فرض ہی نہیں قرض بھی ہے۔

اہل وطن ہی نہیں بیرون ملک مقیم شہری اب اس سیاسی لڑائی سے تنگ ہیں، جس کی بدولت نقل و حمل کا قانونی اور آئینی حق ہی چھین لیا جائے، وہ بیچارے انتہائی مجبوری کی حالت میں بھی سفر نہ کر سکیں، اگر تمام جماعتیں 26 ویں آئینی ترمیم پر متفق ہو سکتی ہیں، تو ایسا قانون کیوں نہیں لاتیں جس کا مقصد سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے باوجود عوامی زندگی اجیرن ہونے سے محفوظ رہ سکے۔ ملک میں ہر لمحہ غیر یقینی صورت حال ہر شہری کے لیے باعث پریشانی ہے، ذرا اِن اوورسیز مسافروں سے تو پوچھیں جن کی فلائٹ چھوٹ گئی، ان کے دل پر کیا بیت رہی ہے، جومعاشی بوجھ برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت سے بھی محروم ہو سکتے ہیں، انکی تشفی کیسے ممکن ہو گی ہے؟ زر مبادلہ بھجوانے کا انہیںکیا خوب صلہ دیا جا رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.