شادی ہال کے باہر بہت نفاست اور سادگی کے ساتھ سفید اور گلابی رنگوں کے پھولوں سے آراستہ دولہا کی کار دیکھ کر اندازہ ہوا کہ بارات آ چکی ہے۔ ہال کے دروازے پر میزبان مرد مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔دلہن کے بھائی نے رہنمائی کرتے ہوئے کہا۔’’ آپ سامنے سیڑھیوں سے فرسٹ فلور پر چلی جائیں ‘خواتین کے بیٹھنے کا انتظام وہاں کیا گیا ہے۔کچھ خواتین اس راستے سے اوپر جاتی ہوئی نظر آئیں۔ شادی ہال کی با لائی منزل پرہال میں خواتین کے بیٹھنے کاعلیٰحدہ انتظام کیا گیا تھا۔ہال میں دا خل ہوتے ہی نکاح کے دعائیہ کلمات سنے اور آمین کہا۔ دلہن کی والدہ بہت خوشی سے خواتین مہمانوں کا استقبال کر رہی تھیں۔ انہوںنے خواتین ہال میں بھی سر پر دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔ انہیں بیٹی کا گھر آباد ہونے پر مبارکباد دی۔دلہن ابھی اسٹیج پر نہیں آئیں تھیں۔’’آئیے میں آپ کو اپنی بیٹی سے ملواتی ہوں‘‘۔وہ مجھے ہال میں ایک جانب بنے ہوئے دلہن کے کمرے میں لے گئیں۔سرخ عروسی جوڑے میں ملبوس دلہن نے دوپٹے کے نیچے سنہرے رنگ کا اسکارف اوڑھا ہوا تھا۔جھومر ‘بندیا اور ہار اسکارف کے اوپر لگائے گئے تھے۔میک اپ کے علاوہ شرم و حیا نے دلہن کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیا تھا۔ دلہن کو شادی کی مبارکباد اور ازدواجی زندگی کی کامیابی کیلئے دعا دی۔شادی بیاہ کی علیحدہ تقریبات میں بھی خواتین کے ہال میں اکثر دولہا دلہن کے گھر یا خاندان کے مردوں کی آمد و رفت رہتی ہے۔یہاں کوئی مرد یا لڑکا بھی نظر نہیں آرہاتھا۔باپردہ خواتین عبائے اتار کر بیٹھی ہوئی ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف انجوائے کر رہی تھیں۔خواتین کا الگ انتظام دیکھ کر اندازہ ہوا کہ میزبان راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور شادی بیاہ کی تقریبات بھی اسلامی روایات کے مطابق کرتے ہیں۔
شادی بیاہ کی تقریبات کا اہتمام شادی ہالوں میں کیا جاتا ہے۔دین دار گھرانوں میں خواتین اور مردوں کا انتظام الگ ہوتا ہے۔بعض اوقات ایک جانب مردوں اور دوسری جانب خواتین کے بیٹھنے کا انتظام ہوتا ہے لیکن درمیان میں کوئی پردہ نہیں ہوتا۔بعض دیندار گھرانوں میں بھی دینی اقدار کو پس پشت ڈال کر حضرات و خواتین کی مخلوط نشست کا اہتمام کیا جاتا ہے۔شادی بیاہ کی تقریبات رشتے داروں اور دوست احباب سے ملنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔بعض لوگ طویل عرصے کے بعد ان تقریبات میں ہی ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ان تقریبات میں عام طور پر اتنی بلند آواز میں میوزک لگایا جاتا ہے کہ ساتھ بیٹھے ہوئے فرد کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ اس ہال میںمیوزک کی کوئی آواز بھی سنائی نہیں دی۔ میوزک کا شور نہ ہونے کے باعث خواتین ایک دوسرے کی باتیں آسانی سے سن اور سمجھ رہی تھیں۔
یہ ایک معروف ڈاکٹر کی اکلوتی ڈاکٹربیٹی کی شادی کی تقریب تھی جواسلامی روایات کی عکاس تھی۔ہال میں پردے کا مکمل انتظام تھا۔ خواتین کے لئے علیٰحدہ انتظام کے باعث پردہ نہ کرنے والی خواتین بھی خوب انجوئے کرتی ہوئی نظر آئیں۔دولہا والوں کی طرف سے خوبصورت ڈبوں میںخواتین میںنکاح کے چھوارے وغیرہ تقسیم کئے گئے۔بارات میں آئی ہوئی چند لڑکیوں نے خوشی کے موقع کی مناسبت سے بہت خوبصورت غرارے پہن رکھے تھے۔سر پر ہم رنگ اسکارف اوڑھے ہوئے تھے ۔ہال میں لگے ہوئے کیمروں کے باعث بارات کے ساتھ آنے والی چند خواتین نے چہرے کو نقاب سے ڈھانپ رکھا تھا۔ہال انتظامیہ کی جانب سے کیمرے بند ہونے کی یقین دہانی کے بعدان خواتین نے نقاب اتار دیئے۔مختلف اداروں کی جانب سے خواتین کی تقریبات میںخواتین کی خاطر تواضع کے لئے خواتین ویٹر سروس فراہم کی جاتی ہے۔یہاںکھانا کھلانے والی خواتین اور کھانے والی بھی خواتین تھیں ۔خواتین نے کھانا بھی خوب آرام سے کھایا‘کھانے کے دوران وہ خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔شادی بیاہ کی مخلوط تقریبات میں کھانا کھلتے ہی خواتین اور مرد ایک ساتھ کھانے کی طرف دوڑ لگاتے ہیں۔یہ منظر بہت عجیب ہوتا ہے جس سے خواتین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کھانے میں پنجاب حکومت کی جانب سے عائد ون ڈش کی پابندی کی گئی تھی۔حکومت نے لوگوں کی آسانی کے لئے صرف ون ڈش کی اجازت دی ہے۔ایک روز قبل شادی کی ایک ایسی تقریب میں شرکت کی جس میںون ڈش کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کھانے میں مختلف اقسام کے سالن اور روسٹ بھی رکھے گئے تھے ۔
ظہرانے سے پہلے دلہن کو اسٹیج پر لایا گیا۔دلہن کے اسٹیج پر آنے کے لئے نہ ہال کی بجلیاں بندکی گئیں‘نہ ہی برقی پھلجڑیاں روشن ہوئیں۔ دولہاا بھی ہال میں نہیں آیا تھا کہ وہ آجکل کے مروجہ فیشن کے مطابق دلہن کا ہاتھ پکڑ کر اسے اسٹیج پر لا کر اپنے ساتھ بٹھاتااور قریب کھڑے ہوئے لوگوں کی تالیوں سے ہال گونج اٹھتا۔دلہن کے کھانے کا انتظام اسٹیج پر تھا۔ ظہرانے کے بعد دلہن کے بھائی دولہا کو اسٹیج پر لے کر آئے اور اسے دلہن کے ساتھ بٹھا دیا۔دولہا کے ساتھ نہ اس کے بھائی ‘والد اور نہ ہی دوست ہال میں آئے۔ دولہا اور دلہن ماشا اللہ چاند سورج کی جوڑی لگ رہے تھے۔دلہن پردہ کرتی تھیں اس لئے ان کی والدہ نے خواتین اور لڑکیوں سے دلہن کی تصویر بنانے کے لئے معذرت کی ۔کسی قسم کی تصویر سے بچنے کیلئے دلہن نے اسکارف سے اپنا چہرہ چھپا لیا تھا۔ یہاں کوئی فوٹوگرافر تھا نہ ہی دلہن کے فوٹو شوٹ کیلئے مختلف پوز بنائے گئے۔ شادی بیاہ میں پیشہ ور فوٹو گرافر سے دلہن اور دولہا کی تصاویر اور وڈیوز بنانا ان تقریبات کا لازمی جزو بن گیا ہے۔ فوٹو شوٹ سیشن کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے ۔فوٹو گرافر سر تا پا دلہن کی ہر زاویے سے تصاویر اور وڈیو بناتے ہیں۔جس سے کسی فلم یا ٹی وی ڈرامے کی شوٹنگ کا گمان ہوتا ہے۔فوٹو گرافر بھاری معاوضہ لیتے ہیں۔کمپیوٹر میں فوٹو شاپ میںتصاویر کو اصل سے کہیں زیادہ خوبصورت بنا کر البم تیار کی جاتی ہے۔اب باعزت اور روایات کا پاس رکھنے والے شریف گھرانوں میں نا محرم مردوںسے بیٹیوںکی تصاویر بنوانے کو عار نہیں سمجھا جاتا۔نہ یہ چیز ماں کو بری لگتی ہے اور نہ ہی دلہن کے باپ کو اس پر شرم آتی ہے۔
جوتی چھپائی اور دودھ پلائی سمیت کوئی رسم نہیں ہوئی۔اپنی روایات کا پاس رکھنے کی بجائے انگریزوں کی نقالی کرتے ہوئے شادی میں کیک کاٹنے کی ’’جدیددرآمد شدہ‘‘ رسم بھی ادا نہیں کی گئی۔ دلہن کی رشتے دار خواتین نے دولہا دلہن کو سلامی اوربعض نے خوشی کے اظہار کے لئے گلدستے دئے۔قریب بیٹھی ہوئی دو خواتین کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ دولہا والوں نے جہیز لینے سے سختی سے منع کر دیا تھا۔اس لئے دلہن کو کوئی جہیز نہیں دیا گیا۔بیٹی کی شادی میںوالدین کی طرف سے دیا جانے والا گھریلو سامان جہیز کہلاتا ہے۔بعض اوقات لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور لڑکی کے والدین کو جہیز کی اشیا ء کی ایک فہرست تھما دی جاتی ہے۔ جہیز نہ دینے کی وجہ سے لڑکیوں کی شادیاں مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔بعض گھرانوں میں جہیز کیلئے بھاری قرض لئے جاتے ہیں۔جنہیں اتارتے اتارتے کئی سال گزر جاتے ہیں۔جہیز نہ لینا اچھی روایت ہے جسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ایسے گھرانے بھی ہیں جو جہیز کے نام پر دلہن والوں سے کوئی چیز نہیں لیتے۔راقم الحروف کی ایک قریبی دوست نے بتایا کہ ان کی بیٹی کے سسرال والوں نے جہیز لینے سے سختی سے منع کر دیا تھا۔انہوں نے دولہا کے والدین اور بہن بھائیوں کے لئے پہناوے کے جو جوڑے تحفتاً دئے تھے دولہا والوں نے اسے غلط روایت قرار دیتے ہوئے وہ جوڑے بھی بہت معذرت کے ساتھ واپس کر دیئے۔اس یاد گارشادی میں شرکت کر کے میںسوچ رہی تھی کہ شادیاں اس طرح بھی تو ہو سکتی ہیں۔ہمارے مذہب نے نکاح کو آسان بنایا ہے مشکل نہیں لیکن ہمارے معاشرے نے اسے مشکل بنا دیا ہے۔
تبصرے بند ہیں.