کہیں سائنسی ترقی کہیں دور جاہلیت کی واپسی

44

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا یہ عالم ہے کہ روز حیرت میں اضافہ ہورہا ہے، گھر کے ایک کمرے میں بیٹھے بیٹھے دنیا کے کونے کونے میں ہونے والے واقعات کا مشاہدہ ہورہا ہے،دوسرے سیاروں پر انسانی بستیاں بسانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، انسانی دماغ میں چپ لگانے کی باتیں ہورہی ہیں۔

ایک جانب ترقی کا یہ تیزرفتا ر سفر ہے اور دوسری جانب اخلاقی سطح گرتے گرتے اس مقام تک آپہنچی ہے کہ لگتا ہے کہ دنیا آج پھر اسی دور جاہلیت میں لوٹ آئی ہے جب سب سے بڑا قانون طاقت ہوتا تھا، کسی غریب،بے نوا، عورت،بچے کے حقوق محفوظ تو کیا ہوتے ، تھے ہی نہیں،بے شمار غلام تھے، کچھ آقا تھے، آقاؤں کو خدائی اختیارات حاصل تھے،جیسا چاہتے غلاموں کے ساتھ سلوک کرتے حتی کہ مار بھی دیتے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا، بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔

آج کی دنیا میں کیا ہورہا ہے،مہذب دنیا کی سب سے بڑی اور معتبر تنظیم اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2023میں دنیا بھر میں ہر 10منٹ میں ایک خاتون کو اپنے ساتھی یا رشتہ دار کے ہاتھوں قتل کیا گیا، اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ نسوانی قتل خطرناک حد تک بلندسطح پر ہے،قریباََ85ہزار خواتین اور لڑکیوں کو قتل کیا گیا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے قریباََ60فیصد سے زیادہ خواتین اور لڑکیا ں اپنے ساتھی یا رشتہ دار کے ہاتھوں مریں، گھر ، خواتین اور لڑکیوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ بنے ہوئے ہیں، افریقہ میں سب سے زیادہ 21ہزار 700خواتین اپنے قریبی لوگوں کے ہاتھوں ماری گئیں، اس کے بعد امریکا اور ایشیاکا نمبر آتا ہے، یورپ اور امریکا میں گھریلو تشدد میں ماری جانے والی خواتین کا تناسب بالترتیب 64اور 58فیصد ہے، رپورٹ کے مطابق یورپ اور امریکا میں خواتین کا جان بوجھ کر قتل زیادہ تر قریبی ساتھیوں کے ذریعے ہوا، اس کے برعکس مردوں کا قتل اکثر گھر او ر خاندان سے باہر ہوتا ہے۔
ہم ایشیائیوں خصوصاََپاکستانیوں کا ریکارڈ بھی اس حوالے سے انتہائی شرمناک ہے، عزت، غیرت، شرم سب کچھ صرف عورتوں سے منسوب کر دیا گیا ہے، گویا مردوں کو کھلی چھوٹ ہے، عورت پر شک بھی ہوجائے تو مار دو، خودہی مدعی، خود ہی گواہ،خود ہی جج اور خود ہی جلاد بن جاتے ہیں، بھارت کی ریاست ہریانہ اور دیگر علاقو ں میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد کم ہوگئی ہے کیونکہ وہاں یہ عام بات ہے کہ بیٹی کو رحم مادر ہی میں ماردیا جاتاہے اور جو پیدا ہوجاتی ہیں ان کی زندگی اتنی اذیت ناک ہوتی ہے کہ جب وہ خود ماں بنتی ہیں تو بیٹی کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مارنے میں معاون بن جاتی ہیں ،بعض مسلم معاشروں میں بھی جہیز کی لعنت موجود ہے لیکن ہندو معاشرے میں تو اسے لعنت بھی تصور نہیں کیا جاتا ، لڑکے کے ماں باپ انتہائی بے شرمی سے منہ پھاڑ کر رقم اور سازوسامان کامطالبہ کرتے ہیں اور لڑکی کے والدین کو ان کا مطالبہ کسی بھی حال میں پورا کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود بہت سی دلہنوں کو کم جہیز لانے پر طعنے دیئے جاتے ہیں، ان کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ خودکشی پر مجبور ہوجاتی ہیں او ر کبھی شوہر اور اس کے گھر والے اسے مار دیتے ہیں۔

موجودہ دور میں یہ سمجھا جارہا ہے کہ نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ ہی غلامی کا دور بھی ختم ہوگیا اور اب کوئی کسی کو غلام نہیں بناسکتا،لیکن یہ خیال بھی خام ہی ثابت ہوا ہے، حال ہی میں آسٹریلیا کی حکومت نے پہلے اینٹی سلیوری کمشنر کا تقرر کیا ہے تاکہ جدید غلامی کے خاتمے اور اسکی روک تھام کی کوششوں میں مدددی جاسکے،کرس ایونز کا تقرر 5سال کے لیے کیا گیا ہے، ان کے تقررنامے میں کہا گیا ہے کہ جدید غلامی انسانوں کو عزت نفس، بنیادی حقوق اور آزادیوں سے محروم کردیتی ہے، جدید غلامی کی متعدد شکلیں ہیں ،جن میں انسانی سمگلنگ، جبری شادی، جبری مشقت،دھوکے پر مبنی ریکروٹنگ اور قرض کے عوض استحصال وغیرہ شامل ہیں،انسداد جدید غلامی کے کمشنر کے لئے 2023-24 میں 80لاکھ ڈالر کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، آسٹریلیا کی حکومت نے جدید غلامی کی جس صورتحال کا ذکرکیا ہے، پاکستان میں اس کی ہر شکل موجود ہے، انسانی اسمگلر غریب ،مجبور لوگوں کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں، اس سے متعلق خبریں اکثر سننے کو ملتی ہیں،ان کی پوری زندگی کی جمع پونجی ہتھیانے کے بعد جانوروں کی طرح کشتیوں میں ٹھونس دیا جاتاہے، جن میں سے بہت سے لوگ دم گھٹنے،بھوک پیاس کے باعث دم توڑدیتے ہیں، بعض کشتیاں ہی ڈوب جاتی ہیں اور اگر منزل پر پہنچ بھی جائیں تو ان تارکین وطن کو ڈر اور خوف کے ماحول میں زندگی گزارنا ہوتی ہے۔

جبری شادیوں اور جبری مشقت کا کلچر دیہات میں زیادہ پایا جاتا ہے، اپنے دشمن کو قتل کرکے صلح کے عوض بیٹی دشمن کے خاندان میں بیاہ دی جاتی ہے، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں اس بچی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہوگا، جاگیرداروں،زمینداروں اور شہری دولت مندوں کے گھروں میں گھریلو ملازمین کے ساتھ جو مظالم کیے جاتے ہیں،ان میں کسی کسی کی کہانی منظر عام پر آتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،زبانی ڈانٹ پھٹکار،مارپیٹ کے ساتھ ساتھ استری سے جسم جلادینے کے واقعات عام ہوگئے ہیں، ایسی خبریں گھر میں ہی دبا دی جاتی ہیں،اگر کوئی بات باہر آبھی جائے تو کچھ دن ٹی وی چینلز ،اخبارات میں خبریں آتی ہیں اور پھر سناٹا، مجرم اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ انہیں کبھی سزانہیں ہوپاتی۔

دور جاہلیت میں سب سے بڑا قانون طاقت ہوتا تھا،اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ آج بھی سب سے بڑا قانون ،اصول،ضابطہ طاقت ہی ہے بلکہ آج بہت زیادہ بے رحمانہ انداز سے اس پر عمل کیا جارہا ہے، نہتے لوگوں پر خوفناک ترین ہتھیا ر استعمال کیے جارہے ہیں ،غزہ،مغربی کنارے، لبنان،شام اسرائیلی طیارے ہر جگہ بمباری کررہے ہیں، روزانہ سیکڑوں مردوں،عورتوں،بچوں کوہلاک کیا جارہاہے، حتیٰ کہ ہسپتال بھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں، طبی سہولتیں ختم ہوکر رہ گئی ہیں، کھانے پینے کو کچھ نہیں رہا، باہر سے امدادغزہ پہنچنے نہیں دی جارہی، بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہاہے، بدترین مظالم کے باوجود بین الاقوامی برادری کچھ نہیں کررہی یا کچھ نہیں کرپارہی، اس لیے دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکا اسرائیل کی پشت پناہی کررہاہے، مقام حیرت ہے کہ امریکا اور یورپ جو سب سے زیادہ مہذب ہونے کے دعویدار ہیں اور باقی اقوام ان سے مرعوب بھی ہیں،وہی بدترین مظالم ڈھانے والے اسرائیل کے مددگار ہیں،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ضرور ترقی ہوئی ہے اور تیزی سے جاری ہے لیکن اخلاقی لحاظ سے دنیا ترقی نہیں کررہی بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ تنزلی کی جانب گامزن ہے، قانون وانصاف خواب وخیال ہوکر رہ گیا ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول ہرجگہ کارفرماہے۔

وطن عزیز کی آج جو صورتحال ہے اس کی بنیاد بھی ہمیں یہی نظر آتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف ختم ہوکر رہ گیا ہے، طاقتور جوچاہ رہا ہے کررہا ہے، آئین ،قانون،اصول ، ضابطے، اقدار،روایات سب پامال ہوچکے، عوام کو کہیں سے انصاف کی امید نہیں ، ان کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا ہے، ملک بھر میں افراتفری ہے، لیکن طاقتور کا خیال ہے کہ ملک ترقی کررہا ہے، مہنگائی کم ہورہی ہے عوام کو یہی دکھایا جائے، یہی سنایا جائے ،ایسی صورت میں افواہیں پھیلانا آسان ہوجاتا ہے، عوام پریشان ہیں کہ کس ذریعہ پر اعتبار کریں اور کس پر نہ کریں، طاقتور کا وژن یہی ہے کہ مہنگائی کم ہونا اور ترقی ہی اصل پیمانہ ہے، عدل وانصاف،اخلاق واقدار ثانوی چیزیں ہیں حالانکہ جہاں یہ چیزیں نہ ہوں وہ معاشرے ہی تباہ ہوجاتے ہیں پھر کہاں کی ترقی اور کہاں کی مہنگائی میں کمی۔

تبصرے بند ہیں.