ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چاہئے

54

بچپن میں سنا کرتے تھے دکانداری نرمی کی اور حکومت سختی کی ہمارے یہاں عجیب تماشا ہے ایک کو حکومت ملتی ہے تو دوسرا اس کے سامنے ڈھول بجانے لگتا ہے ویسے بھی جہاں ایک دانشور ایک مزدور ایک ان پڑھ اور ایک پروفیسر کا ووٹ ایک برابر تسلیم کیا جائے یعنی فقط ایک بریانی کی پلیٹ پر بک جاتا ہو وہاں جمہوریت کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے غور کیا جائے ان 77سال میں کتنی حکومتیں ہیں جو پانچ سال پورے کرنے میں کامیاب ہوئی ہیںاگر کامیاب نہیں ہوئیں تو وجہ یہی عدم استحکام ہے ورنہ ہمارا ملک تو بہت روشن و زرخیز ہے جیسا کہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ

نہیں ہے نا مید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ماضی قریب سے اب تک پاکستان پر سویلین اور ملٹری نے حکومتیں کی ہے، لیکن حاصل نتیجہ وہی صفریعنی ہمارے سبز پاسپورٹ کی عالمی سطح پراہمیت بتاتی ہے پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کی پیمائش کے پیمانے خریدے جا رہے ہیں مگرنام نہاد جمہوریت جس کے ذریعے ملک پاکستان میں ذہنی پراگندگی میں دن بہ دن اضافہ ہوا ہے ملک ’غیر محفوظ‘ ہوا کی بہتری کے لئے کوئی نہیں سوچ رہا ۔

ارد گرد آج کل پھرپریشان کن حالات میںموضوع بحث جمہوریت ہے یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ جمہوریت کی طرح نظر آتا ہے، لیکن اس جیسا کام نہیں کرتا۔نظام کی خرابی کا عالم یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر مسند اقتدار پر بیٹھنے والا عوام اور ملک کی بالادستی کے لئے کام نہیں کرتا بلکہ پارلیمان میں آتے ہی اپنے بینک بیلنس اور ووٹ کی گنتی بڑھانے کے منصوبوں کو عملی جامہ دینے میں مصروف دکھائی دے رہا ہے! ہمیں بہترین ایڈمنسٹریشن کی شدید ضرورت ہے اسکے بغیر ملک نہیں چل سکتاکہنے کو ہم اس بات سے متفق ہیں کہ جو ممالک ترقی یافتہ ہیں وہاں ون مین شو ہے یا صدارتی نظام ہے میرا یہاں کہنا مقصود ہے کہ پاکستان میں بھی صدارتی نظام ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ موجودہ جمہوری نظام حقیقت کے بالکل برعکس ہے یہاں ہم نے اداروں کی سطح پر الگ الگ بادشاہ بنا رکھے ہیں ہر کوئی علیحدہ علیحدہ اپنا ون مین شو دکھا رہا ہے کونسلراپنی گلی محلے کا بادشاہ ہے، چیئرمین اپنے علاقے کا بادشاہ ہے ،ایم پی اے اپنی مرضی سے افسران کی پوسٹنگ کراتا ہے، ایم این اے اپنی مرضی کی بھرتیاں کراتا ہے اپنی مرضی کے ڈی سی ، ایس ایچ او اور کمشنر لگوائے جاتے ہیں تاکہ ان سے ناجائز کام کرائے جا سکیں وہ جب ان کی مرضی سے ایک ناجائز کام کرتے ہیں تو اپنے مفاد کے لئے مزید دس کام بھی کرتے ہیں اور اسطرح آوے کا آوا ہی بگڑتا چلا جاتا ہے ہمارے تمام ایم پی اے، ایم این اے جو 77 سال سے خاندانی نظام کے تحت چلتے آرہے ہیںکسی بھی علاقے میں جہاں ان کا حلقہ ہو وہاں کوئی دوسرا سر نہیں اٹھا سکتا اگر وہاں کوئی مقابلے کا سوچے بھی تو اسے بے سرو پا مقدمات میں الجھا دیا جاتا ہے یا اسے ڈنڈے کے زور پر روک دیا جاتا ہے جیسا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میںفقط پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا انکے مابین کس قدر قتل و غارت ، نورا کشتی ہو چکی ایسی گینگ وار دیکھنے میں آئی جیسی صرف کبھی فلموں میں دیکھنے کو ملا کرتی تھی کئی مافیا جنم لے چکے ہیں آجکل ’’دنیا پور ‘‘ کے نام سے جو ڈرامہ سیریل چل رہا ہے لیکن ہم ہیں کہ جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔

پوری دنیا کی آبادی قریباً ساڑھے آٹھ ارب پر مشتمل ہے اور اس میں سے صرف آٹھ سے دس فیصد آبادی اصل جمہوریت سے ہمکنار ہے ڈیموکریسی انڈیکس میںیو این کے رکن ممالک میں سے فقط دو درجن کے قریب ممالک کے بارے میں حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہاں پر اصلی جمہوریت ہے اس ڈیموکریسی انڈیکس کے مطابق پاکستان کا نمبر بھی 110 کے قریب ہے ۔بہت سے ممالک ایسے ہیں جو پاکستان کے بعد آزاد ہوئے لیکن وہاں جمہوریت کا بول بالا ہے ڈیمو کریسی انڈیکس میں وہ ملک جہاں جمہوریت سب سے زیادہ مضبوط ہے وہ امریکہ ہے نہ برطانیہ نہ جرمنی نہ فرانس ہے وہ ایک سوشل ویلفیئر سٹیٹ ہے یعنی فلاحی جمہوریت ہے یعنی فلاحی جمہوریت ہی کامیابی کی کنجی ہے کیا موجودہ سیاسی جمہوری بحران اور جس طرح سے سیاست دانوں کی اقتدار کے لئے جدوجہد میں ڈھٹائی سے مصروفیت ملک کو جلا رہی ہے – اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جس ”جمہوریت” کا حصہ ہیں وہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے؟ درحقیقت یہی ’’جمہوریت‘‘ ہی ہے جس نے خراب حکمرانی کو جواز فراہم کیا، انتخابات میں شکست کے خوف سے اصلاحات کی مخالفت کیں، اور سب سے بڑھ کر اب اس میں برداشت کے مادہ کی کمی بھی ہے۔نتیجہ پاکستان کا ہر شعبہ دنیا بھر کے فیلیئرز میں نمبر ون پر آ چکا ہے یو این کی رپورٹ کے مطابق تمام تر ترقی ان ساٹھ سال میں ہوئی ہے لیکن ہمارا نظام تعلیم آج بھی ساٹھ سال پیچھے ہے تمام معاملات میں ہمارے ادارے آئی سی یو میں داخل ہیں جن کی ریکوری اب بہترین ایڈمنسٹریشن کے ذریعے بے حد ضروری ہے پارلیمانی جمہوریت کے نام پر حاصل کئے گئے اس ملک کا نام پوری دنیا کے ممالک میں جعلی جمہوریت والے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے یہاں خواندگی کی شرح اٹھاون فیصدہے آئین کی رو سے ۱۶ سال تک کے ہر بچے کو تعلیم دلوانا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ہمارے یہاںایسا کچھ نہیں ایجوکیشن کا معیار اسقدر گر چکا ہے کہ ہم محض لکھ لینے اور پڑھ لینے والے کو پڑھا لکھا مان کر تعلیم کے اشاریے پورے کر رہے ہیں حالانکہ دنیا کے باقی ممالک میں تعلیم کا معیار یہ نہیں ! یوکرائن ازبکستان آذربائجان قازقستان جنوبی کوریا فن لینڈ جارجیا لکسمبرگ اور ناروے میں خواندگی کی شرح سو فیصد ہے اور باقی ترقی یافتہ ممالک جن میں ہمارے دوست ممالک ترکی اور چائنہ 97 فیصد بھی اس دوڑ میںمزید آگے بڑھنے کے لئے کوشاں دکھائی دے رہے ہیںلیکن ہم آج بھی ناکامیوں کی لمبی داستانیںلئے وہیں کے وہیں کھڑے ہیں پھر بھی ہم جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے !

خلاصہ یہ ہے کہ میں تمام دانشوروں کو چیلنج کرتا ہوں کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کوئی ایک ادارہ بتا دیں جس نے کرپشن کے علاوہ کارکردگی میں اپنا انڈیکس برقرار رکھا ہو دوسری جانب میں ایک اور ادارے کی بھی مثال دیناچاہتا ہوں وہ پاک آرمی ہے جس نے قیام پاکستان سے لے کراب تک عالمی سطح پر رینکنگ میں نہ صرف اپنا مقام برقرار رکھا ہے بلکہ بہتر بھی بنایا ہے جبکہ دوسری جانب ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہر اچھا منصوبہ جیسا کہ کالا باغ ڈیم اورسی پیک ذاتی مفادات اور سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں ایسے ملک نہیں چلتے !!!۔

تبصرے بند ہیں.