پاکستان بیک وقت اسلامی بھی ہے اور جمہوریہ بھی لیکن حقیقت یہ ہے ان دونوں کی عمل پذیری ہمارے سماجی ڈھانچے میں کہیں بھی نظرنہیں آتی۔ ریاست کودرست سمت چلانے میں عدلیہ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے جن معاشروں میں عدل مفقود ہوا تو وہ قومیں تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود تباہ و برباد ہوگئیں۔ انصاف کا اعلیٰ ترین معیار اور عدلیہ کی غیر جانبداری ایک اسلامی ریاست کا بنیادی جزو ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں عدالتی نظام کمزوربلکہ ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کو معاشی، سماجی، اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے۔ عدالتوں میں انصاف کی فراہمی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر شہری کو اس کا حق وقت پراوربلا تفریق حاصل ہو۔ آئین پاکستان کے حصہ دوم کا باب اول، بنیادی حقوق (آرٹیکل 8 تا 28)، شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے، جن میں مساوات، آزادی اظہار، مذہبی آزادی، اور عدالتی تحفظ جیسے اہم حقوق شامل ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 9 زندگی اورآزادی کا تحفظ فراہم کرتاہے۔ آرٹیکل 10 اے منصفانہ ٹرائل، آرٹیکل 14 عزت نفس اور گھر کی حرمت کا تحفظ، آرٹیکل 25 تمام شہریوں کے ساتھ مساوات اورآئین پاکستان کا آرٹیکل 37 ڈی پاکستان کے شہریوں کو سستا اور آسان انصاف فراہم کرتا ہے۔ برابری کی بنیاد پرتعلیم، صحت اور روزگار ملے۔ لیکن یہ سب کتابی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔پاکستان میں ایک طبقہ وہ ہے جو چھینک بھی آئے تو بیرون ملک علاج کے لئے روانہ ہوتا ہے جبکہ اکثریت کوسرکاری اسپتالوں میں ڈسپرین لینے کے لئے بھی دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ عملی طور اس وقت ہم جس ریاستی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ وہ سموگ سے بھی زیادہ خطرناک اورغیرمحفوظ محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے عدالتی نظام کی حالت یہ ہے کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، اور نچلی عدالتوں میں مجموعی طور پر 23لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، جو عدالتی نظام کی ناکامی اور عوامی مشکلات کے عکاس ہیں۔اسلامی ریاست میں عدلیہ کا بنیادی مقصد قرآن و سنت کی روشنی میں انصاف فراہم کرنا ہے۔ قرآن پاک میں واضح طور کہا گیا ہے کہ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (سورۃ
الحجرات)۔اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر شہری کو بولنے، جینے، اور انصاف کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔معاشی مواقعوں کامساوی حصول، دولت کی منصفانہ تقسیم، اور سماجی برابری کو یقینی بنانا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں ان اصولوں کو نافذ کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ عدلیہ کو آئین میں درج بنیادی حقوق پرعمل درآمد کرانے میں کیا دقت ہے؟ آج وہ ممالک دنیا میں ترقی کی اوج پر نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنے معاشروں میں سماجی انصاف کو قائم کیا ہے۔ فن لینڈ کا عدالتی نظام شفافیت، تیز فیصلوں، اور غیر جانبداری کے لیے مشہور ہے۔ وہاں کسی بھی مقدمے کو زیادہ سے زیادہ چند ماہ میں نمٹایا جاتا ہے، جس سے انصاف کی فوری فراہمی یقینی بنتی ہے۔ ناروے میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں، اور عدلیہ ان حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ ججز کا تقرر آزاد عدالتی کمیشن کے ذریعے کیا جاتا ہے، کسی قسم کی سیاسی مداخلت کا تصور بھی نہیں پایا جاتا۔ سنگاپور کا عدالتی نظام بدعنوانی کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار ہے۔ عدالتوں کی تیز رفتاری اور غیر جانبداری نے سنگا پور کو دنیا کی بہترین معیشتوں میں شامل کر دیا ہے۔پاکستان میں عدالتی نظام کی حالت افسوسناک ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رول آف لاء انڈیکس 2023 کے مطابق، پاکستان 140 ممالک میں 129ویں نمبر پر ہے۔ یہ درجہ بندی عدلیہ کی غیر موثر کارکردگی، تاخیر سے فیصلے، اور شفافیت کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ پاکستان کے ججز کو بھاری تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں، جن میں لاکھوں روپے کی ماہانہ تنخواہیں، سرکاری گاڑیاں، اور دیگر سہولیات شامل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، انصاف کا معیار اور رفتار عوامی توقعات پر پورا نہیں اترتا۔ ایک بار ججز کے اجلاس میں ایک باہمت جج وقار سیٹھ (مرحوم) نے تجویزدی کے عدلیہ تنخواہیں اور مراعات بہت زیادہ ہیں اگر ہم یہ تنخواہیں اور مراعات آدھی کر دیں اور نئے جج بھرتی کریں تو ججز کی تعداد دوگنی ہو جائے گی۔کیسز نمٹانے کی رفتاربڑھ جائے گی۔ لیکن کسی جج نے اس تجویز کی حمایت نہ کی۔ پاکستان شاید دنیاکا واحد ملک ہے جہاں خراب کارکردگی کے باوجود آئے روز عدلیہ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر ہم ریاست پاکستان کے موجودہ حالات کا تجزیہ کریں تو سست انصاف کے باعث سب سے زیادہ نقصان معیشت کو ہو رہاہے کیونکہ زمین کے تنازعات، تجارتی مقدمات، اور معاہدوں پر عملدرآمد کی ناکامی معیشت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے معیشت زوال پذیر ہے۔ عدالتوں کی سست روی کے باعث بڑے ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں، جو ملک کی مجموعی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔سماجی طور پر، انصاف کی عدم فراہمی سے لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو رہے ہیں، جس سے معاشرے میں بدعنوانی، جرم، اور تشدد بڑھ رہا ہے۔عدلیہ کی کمزوری نے سیاسی نظام کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ حقیقی جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ لیکن عدلیہ کو تنہا اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دینا عدلیہ کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہو گا۔ اعلیٰ عدلیہ میں اہل سیاست اور مقتدرہ کی مداخلت کے باعث ہونے والے فیصلوں نے ملک میں جمہوریت اورمعاشی مستقبل کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ آج ہم جس سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے دوراہے پر کھڑے ہیں اس کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں یہ تینوں ہیں۔ حالیہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا ہے۔ جس نے عدلیہ کی آزادی کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس ترمیم کے تحت سیاسی مداخلت کے امکانات بڑھ گئے ہیں، جو نظام عدل کو مزید کمزور کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ عدالتی نظام کو صرف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیاسی اور گروہی مفادات نے ہمیں اس مقام پرپہنچا دیا ہے کہ دنیا کا پاکستان کو ایک ناکام ریاست کہنا افسوسناک مگر حقیقت کے قریب ہے۔ پاکستان کے عام شہری اپنے سیاسی اور انفرادی حقوق کے لئے سڑکوں اور عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ لیکن حق دینے کی بجائے تاویلوں س کام لیا جاتا ہے۔ یاد رکھیں مضبوط عدلیہ ہی ایک مضبوط اسلامی جمہوری ریاست کی بنیاد ہے۔ اگر ہم اپنے عدالتی نظام کو درست نہ کر سکے تو پاکستان کو مزید معاشی، سماجی، اور سیاسی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انصاف کے بغیر نہ ریاست کا وجود ممکن ہے اور نہ ہی ترقی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ ایک اسلامی جمہوری ریاست میں انصاف ہی سب سے بڑی طاقت اور کامیابی کی ضمانت ہے، اور یہی پاکستان کے روشن مستقبل کی کنجی ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.