پی ٹی آئی کا مارچ اور حکومتی حکمت عملی

49

24نومبر 2024ء عمران خان کی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی آخری کال کا انجام تو پتہ نہیں کیا ہوگا لیکن رینجرز اور پولیس اہلکاروں کی شہادت نے معاملات کی انتہائی سنجیدگی اور سنگینی کا پتہ دے دیا ہے۔ حکومت نے کال کو ناکام بنانے کی حتیٰ المقدور کاوش کیں، ایسی کاوشوں کے نتیجے میں عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ آمدورفت میں مشکلات کے ساتھ ساتھ نیٹ کی بندش سے کمیونیکیشن میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ عمومی نظام حیات، بری طرح متاثر ہوا۔ حکومت مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ وزراء بھرپور انداز میں دھرنے یا لانگ مارچ کیخلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ آخری کال کی بھرپور مذمت کی جا رہی ہے۔ ایسے تمام انتظام و انصرام کے باوجود گنڈاپور کی قیادت میں قافلہ اسلام آباد میں داخل ہو چکا ہے۔ شرکاء ایک فاتح گروہ کے طرز عمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ مظاہرین کے تشدد نے 4رینجرز اور ایک پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں فوج طلب کر لی گئی ہے گویا حکومتی انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ سینکڑوں سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ اصلی صورتحال کے بارے میں حتمی معلومات کا بھی فقدان ہے لیکن فوج کی طلبی بہت کچھ بیان کر رہی ہے اور ایک بات کلیئر ہے کہ معاملات انتہائی سنجیدہ ہو گئے ہیں۔ حکومتی انتظامات کے باعث پی ٹی آئی کے ٹائیگرز بڑی تعداد میں اسلام آباد نہیں پہنچ سکے ہیں۔ پنجاب حکومت کے اعلیٰ انتظامی معاملات نے پنجاب سے بڑی کیا چھوٹی تعداد میں بھی مظاہرین کو جمع نہیں ہونے دیا جس کے باعث پی ٹی آئی پنجاب سے لوگوں کو متحرک کرنے اور انہیں مارچ میں لانے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی لیکن حتمی منظر، انجام کار پریشان کن نظر آ رہا ہے۔ علی امین گنڈا پور کا ترتیب کردہ قافلہ اسلام آباد میں داخل ہو چکا ہے۔ ابھی پتہ نہیں کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے کیونکہ حالات و معاملات پر پراسراریت کی دبیز چادر تنی ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ کسی کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنے دی جائیگی۔ پتہ نہیں ان کی ریڈ لائن کہاں ہے، کدھر سے شروع ہوتی ہے اور کہاں تک جاتی ہے۔ وہ معاملات کو قابو میں رکھنے کے لئے کرفیو لگانے کے آپشن کا بھی اظہار کر چکے ہیں لیکن لگتا ہے کہ مارچ کرنے والے سب کچھ کراس کر چکے ہیں، معاملات فوج کے سپرد کرنا کیا یہ ظاہر نہیں کرتا ہے کہ حکومتی انتظامات ناکام ہو چکے ہیں۔ لانگ مارچ کو ناکام بنانے کی ہماری سرکاری حکمت عملی پٹ چکی ہے۔ پی ٹی آئی وفد کی گوہر علی خان کی قیادت میں رات کے اندھیرے میں اڈیالہ جیل میں عمران خان کے ساتھ ملاقات کا بندوبست حکومتی ناکامی کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے۔ دھرنے یا لانگ مارچ کے بارے میں حتمی فیصلے کی کنجی عمران خان کے پاس نظر آ رہی ہے۔ حکومت نے پی ٹی آئی کو سنگجانی میں دھرنے کی پیشکش کر دی ہے۔ بشریٰ بی بی نے عملاً قیادت سنبھال لی ہے۔ خان کی رہائی تک واپس نہ جانے کا اعلان حتمی قرار پا چکا ہے جب اس مارچ کا اعلان کیا گیا تھا تو مطالبات کی فہرست طویل تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ سکڑتے سکڑتے ایک حتمی مطالبے پر فوکس ہو چکی ہے اور وہ ہے ’’خان کی رہائی۔‘‘ حالات اب اس نہج تک جا پہنچے ہیں جہاں مظاہرین کی تعداد اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا کرنے کے لئے تھوڑے افراد ہی کافی ہیں۔ پی ٹی آئی نے یہ بات عملاً ثابت کر دی ہے۔
ویسے پی ٹی آئی کئی حیران کن باتیں ثابت کر چکی ہے۔ عمران خان سیاست میں بیانئے کی اہمیت ثابت کر چکے ہیں۔ عمران خان 1995ء سے لمبی لمبی تقریریں کرنے اور کرتے ہی چلے جانے کا ایک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ بولتے جانا اور بولتے ہی چلے جانا عمران خان کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ وہ اپنی زبان دانی اور زبان درازی کے ذریعے اپنے عاشقان کا ایک وسیع حلقہ ترتیب دے چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے فالوورز کی ایسی ذہن سازی کر رکھی ہے کہ ان کے نزدیک سچ جھوٹ، برائی اچھائی، دوستی دشمنی صرف اور صرف عمران خان ہی بن چکا ہے۔ وہ اس کی ہر بات سچ مانتے ہیں، اسی کو حقیقت جانتے ہیں۔ یہ تعمیر و ترقی کے ذریعے، ملکی خوشحالی اور بہتری کے ذریعے، عوامی فلاح و بہبود کے ذریعے ووٹرز کو اپنی حمایت پر تیار کرنے کی تھیوری پٹ چکی ہے۔ فروری 2024ء کے انتخابات میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اہمیت صرف اور صرف بیانئے کی ہے، خواب دکھانے کی ہے اور کمیونیکیشن کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ہے۔ باقی جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو وہ تو بھیڑ بکریاں ہیں انہیں کسی سمت بھی ہانکا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں وہ اس حوالے سے کچھ بھی کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ بیانئے کی اہمیت سمجھنے اور اسے تشکیل دینے سے قاصر نظر آ رہے ہیں۔ تمام سرکاری وسائل دستیاب ہونے کے باوجود، وہ عمران خان کے بیانئے کا توڑ کرنے اور قوم کے سامنے کوئی مثبت بیانیہ تشکیل دینے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ حکومت ملک کو معاشی اور سفارتی محاذ کو کامیابی سے ہمکنار کر رہی ہے لیکن عمران خان کی ایک کال ایک بات جو منفی اثرات مرتب کرتی ہے وہ سب کچھ ملیامیٹ کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ عمران خان کا منفی اور ریاست دشمنی بیانیہ پنپ رہا ہے۔ حکمران پی ٹی آئی کے احتجاج پر اسلام آباد، راولپنڈی، قصور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں بشریٰ بی بی، عمران خان، علی امین گنڈا پور سمیت پارٹی اعلیٰ قیادت کے خلاف توڑ پھوڑ سمیت متعدد سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کر لئے ہیں۔ ویسے ایسے مقدمات کی حیثیت ہی کیا ہے۔ 9مئی کے حوالے سے درج مقدمات کا کیا بنا ہے؟ ویسا ہی ان مقدمات کا ہوگا۔ بغیر سوچے سمجھے بغیر کسی منطق اور ثبوت کے درج کئے گئے مقدمات، عدالت اڑا کر رکھ دیتی ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ حکمران صرف اور صرف اپنی حکمرانی کو طوالت دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد پیش کر دی ہے۔ اس قرارداد کی کیا حیثیت ہے کیا حکمران ایسا کر سکتے ہیں؟ کیا عدالت میں اپنے اس موقف کو ثابت کر سکتے ہیں۔ کیا اس سے پہلے سیاسی جماعتوں کو اس طرح کی پابندیوں کے ذریعے ختم کر سکے ہیں؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ عمرانی بیانئے کے مقابل قومی بیانیہ تشکیل دیا جائے۔ اس کے مطابق عوام کی ذہن سازی کی جائے انہیں قومی تعمیر و ترقی کے عمل میں شریک کیا جائے اور انہیں ملک دشمن قوتوں کے خلاف عملاً متحرک کرکے پاکستان کی تعمیر و ترقی کے عمل میں شریک کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.