مجھے حیرت ہوتی ہے جب کوئی شخص انتہائی بے شرمی سے کہہ دیتا ہے کہ پاکستانی فوج پاکستان میں وہی سلوک کر رہی ہے جو کشمیر میں ہندوستانی فوج کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔ عقل کے اِن اندھوں کا مطالعہ ہے اور نہ ہی مشاہدہ ٗ یہ لوگ تو مقبوضہ کشمیر کے حالات اور تاریخ سے بھی باخبر نہیں ۔خود کشمیریوں کی بہت بڑی تعداد کشمیر کو 14 اگست 1947ء کے بعد پیش آنے والی واردات سمجھتے ہیں لیکن کہانی اتنی آسان ہے اور نہ ہی اتنی سادہ کہ صرف چند اہم باتیں یاد کرکے طوطوں کی طرح کشمیر ایشو پر بھاشن دینے سٹیجوں اور نیشنل چینلز پر آ کر بیٹھ جایا جائے ۔ ظلم اور بربریت کی یہ کہانی 16مارچ 1846 ء سے شروع ہوتی ہے جب زمین کا حسین ترین خطہ زمین ٗ دنیا کے خوبصورت لوگوں سمیت صرف پچھتر لاکھ نانک شاہی (جو سکھ حکومت کی کرنسی تھی) کے عوض بیچ دیا ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ انسانیت سوز ٗ غیر اخلاقی اورغیر قانونی معاہدہ افریقا کے کسی غیر مہذب قبیلے نے نہیں کیا بلکہ تاجدارِ برطانیہ کے بل بوتے پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے سرانجام دیا ٗ وہی برطانیہ جو آج دنیا میں سب سے زیادہ مہذب ہونے کا دعویدار ہے۔ 75 لاکھ نانک شاہی کی ادائیگی کے لیے شروع ہی سے کشمیریوں پر بھاری ٹیکس عائد کئے گئے اور کشمیریوں نے اسے غلامی سے تعبیر کیا اوراس کے خلاف ناکام آوازیں بھی بلند ہوئیں لیکن دب کر رہ گئیں یا دبا دی گئیں ۔ اس معاہدے کے بارے میں برطانوی مصنفین نے وسیع لٹریچر لکھا۔یہاں برطانیہ کی یہ انسان دوستی بھی دیکھنا ہو گی کہ غلامی کے خاتمے کا ایکٹ 1833ء نے پوری برطانوی سلطنت میں غلامی کا خاتمہ کردیا تھا۔ غلامی کے خاتمے کا ایکٹ 1833 امرتسر کے معاہدے (16 مارچ 1846) پر دستخط ہونے سے پہلے نافذ ہوچکا تھا لیکن بددماغ اورمغرور برطانوی حکمرانوں اور فتح کے نشے میں چور اپنے ہی بنائے قانون کو اپنے ہی پائوں تلے کچل کررکھ دیا ۔ جہاں تک 1868ء میں ’’کشمیر میں غلط حکومت‘‘ کے نام سے رابرٹ تھورپ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ کشمیر کے لوگوں کو گلاب سنگھ کی غلامی میں بیچ دیا گیا تھا۔آرتھر برنک مین دسمبر 1867ء میں لکھے گئے اپنے مقالے ”دی رانگس آف کشمیری” میں لکھتے ہیں:’’قارئین کو ان لوگوں کی ابتر حالت سے آگاہ کرتا ہوں جنہیں ہم نے ان کی مرضی کے خلاف بیچا، اور انہوں نے متحد ہو کر ہمیں پکارا۔” آرتھر برنک مین ایک اینگلیکن مشنری تھا اور اینگلیکن مشنری گروپس نے غلامی کے خاتمے کے ایکٹ 1833 کو آگے بڑھانے کے لیے انسداد غلامی معاشرہ کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔مجھے یہاں یہ بتانے دیں کہ تقسیم کے فارمولے میں کہیں بھی معاہدہ امرتسر کو منسوح نہیں کیا گیا اور نہ ہی سابقہ فریقین کے درمیان معاملات کا لین دین ہوا بس تقسیم کا فارمولا بنادیا گیا اور کشمیر جو کہ مسلم اکثریتی صوبہ تھا پاکستان میں شامل کردیا گیا لیکن گلاب سنگھ ڈوگرا کا پوتاہری سنگھ کشمیر کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتا تھا اور پھر پنجاب کی تقسیم کے بعد تو وہ کسی صورت بھی پاکستان کے ساتھ جانے کیلئے تیار نہیں تھا ۔ اُس نے بھارتی افواج کو اپنی مد د کیلئے طلب کرلیا جو پہلے ہی اس موقع کی تلاش میں بیٹھی تھی لیکن پاکستان کے قبائلیوں کی مداخلت (یہ ظلم کی ایک الگ داستان ہے)سے بھارت کو بھاگ کریواین او میں جانا پڑا اور یوں یو ۔ این ۔ او کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی اور کشمیریوں کے بارے میں اُن کا حق خود ارادیت طے کرنے کی فیصلہ ہوا ۔جس پر علامہ عنایت اللہ المشرقی نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر تم کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گئے تو یہ قیامت تک حل نہیں ہو گا ۔ کشمیریوں پر تو کئی قیامتیں گزر گئیں لیکن تاحال علامہ عنایت اللہ المشرقی کی بات بھی درست دکھائی دے رہی ہے ۔ آج 27اکتوبر 2024 ہے آج کے دن ہی کشمیر پر بھارتی فوجوں نے قبضہ کیا تھا جس پر آج تک ہے گزشتہ حکومت میں تو بھارت نے اُسے ایک آئینی ترمیم سے ریاست ِ ہندوستان میں ضم بھی کرلیا تھا لیکن عمران نیازی کی حکومت کے تو جیسے اِس پر لب ہی سل گئے تھے ۔ویسے بھی آج تک کسی نے برطانوی حکمرانوں سے یہ سوال نہیں کیا کہ آپ نے معاہدہ امرتسر منسوح کیے بغیر اُسے کیسے پاکستان میں شامل کردیا اور پھر تقسیم سے چند سال پہلے گلگت کا علاقہ آپ نے کیسے ڈوگرہ راج کے سپرد کردیا لیکن اب بھی کچھ لوگ ہیں تو امید کے یہ چراغ بجھنے نہیں دے رہے اور تن دھن سے اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں جس کیلئے وہ کسی سرکاری عہدے کی پروا بھی نہیں کرتے ۔ یہی ہماری دھرتی کے حقیقی بیٹے ہیں جو کسی صورت بھی کشمیر سے دستبردار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔
پاکستان اور بھارت اب تک چار بار مسئلہ کشمیر کی وجہ سے گرم جنگ میں اتر چکے ہیں ۔کشمیر آج تک اِس پر اپنا ناجائز تسلط برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ دونوں ممالک اس خطے کے پُرامن حل تک کبھی اپنے اپنے عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں اور سہولتیں فراہم نہیں کرسکتے ۔ مسئلہ کشمیر حل ہو جانے کے بعد ہمارا بھارت سے کوئی تنازع بظاہر نہیں رہ جاتا لیکن چین کے ساتھ اُس کی خطے میں تھانیداری کی لڑائی پھر بھی رہ جائے گی اُسے پھربھی اسلحہ خریدنا پڑے گا اور بڑی فوج رکھنا پڑے گی مگر پاکستان اور پاکستانیوں کو سکھ کا سانس نصیب ہو گا لیکن بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے ہمیں سُکھ کا سانس لینے دے گا اورنہ ہی اپنے مسائل کم کرنے کی طرف اتنی توجہ دے پائے گا جتنی بڑی آباد ی کو بھارت میں اس کی ضرورت ہے سو وقت کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں ممالک سر جوڑ کر بیٹھیں اور مسئلہ کشمیر کا پُر امن حل نکالیں ورنہ آنے والے دنوں میں کشمیر چین یا امریکہ میں سے بھی کسی کی ضرورت بن سکتا ہے اور وہ وقت ہمارے خطے کیلئے بہت سخت اورجان لیوا ہو گا۔ کشمیر میںشاید کوئی ایسا گھر ہو جس کا فرد جہاد ِ کشمیر میں کام نہ آیا ہو اور شاید ایک بھی گھر ایسا نہ ہو جس نے کسی نہ کسی صورت کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کر کے بھارت فوج کی بدمعاشی ٗ غنڈہ گردی اوربھارتی حکومتی کے آئینی اذیت خانے نہ دیکھے ہوں ۔ پاکستان میں جو لوگ اٹک سے چلتے ہوئے بارہا اسلام آباد خیر و عافیت سے پہنچتے ہیں انہیں بھی صرف افواج ِ پاکستان کی توہین کرنے کیلئے تربیت دی گئی ہے جو ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں کہ ’’ ہم پرمقبوضہ کشمیریوں سے زیادہ ظلم ہو رہے ہیں۔‘‘ یہ ذہن سازی ہے جو گھنٹوں یا مہینوں میں نہیں ہوئی اس کے پیچھے ایک نسل کے جوان ہونے کاانتظار کیا گیا ہے اور اب ایک نسل کے جوان ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔ کشمیر کا میں نے صرف طائرانہ جائز ہ پیش کیا ہے ۔ ابھی اُن اذیت خانوں کا ذکر نہیں کیا ورنہ بڑے بڑے سورما بے اختیار الامان الامان چیخ پڑتے ۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.