ناحق قتل : انسانیت کا نوحہ

103

اسلام امن کا دین ہے ، تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ دین اسلام نے معاشرتی امن اور سماجی انصاف کے لیے جتنی فکری اور عملی کوششیں کی ہیں ، اس کی نظیر نہیں ملتی ۔اسلام کا پیغام کسی مخصوص علاقہ ، نسل ،زبان اور مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لیے تھا۔ دینِ اسلام نے کبھی فسادات کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ فساد پھیلانے والوں کا محاسبہ کیا ۔ربِ دو جہاں نے اپنی کائنات میں کوئی بھی چیز بے مقصد تخلیق نہیں کی، زمین و آسمان کی وسعت انسان کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ اس جہانِ رنگ و بو میں ہر مخلوق کی اپنی الگ اہمیت ہے۔بنی آدم کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتے ہوئے واضح کیا کہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو بھی ہے وہ انسان کے لیے ہی تخلیق کیا گیا ہے ۔ہر جاندار کے حقوق واضح کرتے ہوئے اولادِ آدم کے درجات کا تعین کیا اور مومن کو دیگر طبقات اور بنی نوح انساں پر فوقیت دیتے ہوئے واضح کیا کہ کوئی مومن دوسرے مومن کو ضرر نہ پہنچائے ۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ’کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ دوسرے مومن کو قتل کرے ‘(النسائ)دینِ اسلام نے اس آیت کے ذریعے واضح کیا کہ کسی مسلمان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا ناحق خون کرے ۔کسی بھی انسان کا قتل ایک سنگین اور نا قابلِ معافی جرم ہے جو انسانی زندگی کی حرمت کو پامال کرنے کے ساتھ معاشرتی امن و سکون کو تہس نہس کر دیتا ہے ۔روئے زمین پر سب سے پہلا قتل قابیل نے کیا۔ہابیل اور قابیل حضرت آدم ؑکے دو بیٹے تھے ، قابیل عمر میں بڑا تھا ،کھیتی باڑی کا کام کرتا تھا اور مزاج کے اعتبار سے تیز اور فطرتاً برائی کی جانب راغب تھا ۔جبکہ چھوٹا بھائی ہابیل اس کے بر عکس تھا ، وہ نیک سرشت ، متقی اور منکسر المزاج تھا ، بھیڑ بکریاں چرا کر گزر بسر کرتا تھا ۔ پھر ایک دن اللہ کی جانب سے دونوں بھائیوں کوحکم ہوا کہ اللہ کی راہ میں قربانی پیش کریںتا کہ علم ہو جائے کہ کون اللہ کے نزدیک زیادہ متقی اور مقبول ہے ۔ہابیل نیک سیرت اور اللہ رب العزت سے ڈرنے والا انسان تھا چنانچہ اس نے نیک نیتی کے ساتھ اپنے ریوڑ کی بہترین بھیڑ قربانی کے لیے پیش کی دوسری جانب قابیل نے سوچا کہ اگر قربانی قبول ہو گئی تو اناج نے ویسے ہی جل جانا ہے تو اچھی فصل برباد کرنے کا فائدہ چنانچہ وہ ناقص اور ردی قسم کا اناج لے کر آیا ۔ پھر دونوں دور ہٹ کر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے ، آسمان سے آگ نازل ہوئی اور اس نے ہابیل کی قربان کی ہوئی بھیڑ کو جلا ڈالا جبکہ قابیل کا اناج جوں کا توں پڑا رہا ۔ یوں فیصلہ ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ ہابیل کی قربانی سے راضی اور قابیل سے نا خوش ہے ۔جب قابیل کی قربانی مردود ہو گئی تو اسکا طیش حسد اور پھر حسد انتقام میں بدل گیا ۔پھر اس کے نفس اور شیطان نے سبزباغ دکھا کر اسے اپنے بھائی کا قصہ پاک کرنے پر آمادہ کر لیا کہ وہ اپنے حسد کی آگ کو ٹھنڈا کر لے پھر ایک دن موقع پا کر قابیل نے ہابیل کو مار ڈالا ۔ ظہورِ اسلام سے قبل مذہب اور اعتقاد کا اختلاف قتل ، فسادات اور خونریزی کی سب سے بڑی وجہ تھی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کہ ہر قبیلے اور قوم نے حصولِ اقتذار کی خاطر ایک دوسرے کا بے دریغ قتل کیا ، اس کے برعکس اسلام نے مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کی ایسی فضا پیدا کی جس کی مثال مذاہبِ عالم پیش کرنے سے قاصر رہے ۔جو مسلمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی شہادت دیتاہو اس کا خون بہانا حلال نہیںسوائے تین صورتوں کے ،جن میں ایک تو یہ کہ اس نے کسی کا قتل کیا ہو، دوسرا شادی شد ہ ہو کر زنا کیا ہو ، تیسرا دین اسلام کو چھوڑ دینے والا ہو۔مگرحاکمِ وقت کے علاوہ رعایا میں سے کسی کو بھی ان کے قتل کا اختیار نہیں ۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ’اور جو کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے ۔‘(النسائ)اس آیت کے ذریعے انسانی زندگی کی قدرو قیمت کو اجاگر کیا گیا ہے اور اس بات کو واضح کیا کہ کسی بھی انسان کو نا حق قتل کرنانا قابلِ تلافی نقصان ہے ۔سیدنا ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’ جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں‘۔میں نے عرض کیا :’ اے اللہ کے رسولؐ ! یہ تو قاتل تھا ، مقتول کا کیا قصور ؟ فرمایا: اس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کے در پے تھا ۔‘دین اسلام نے یہ واضح کر دیا کہ ایک مسلمان کا قتل خالقِ کائنات کے نزدیک ساری دنیا کے زوال اور اس کی ہلاکت و تباہی سے بھی کہیں بڑھ کر ہے ۔ مومن کا قتل اس قدر نا پسندیدہ عمل ہے کہ اس کے ارادے پر ہی جہنمی ہونے کی مہر لگ جاتی ہے چاہے قتل کا ارادہ پایہ تکمیل تک پہنچ نہ سکے اور قتل کا خواہاں شخص خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اس سب کے باوجود آج بھی ہمارے ملک میں مذہبی جنونیت اور مذہبی فسادات اپنے عروج پر ہیںجو ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی مسئلہ ہے جس کی جڑیں سماجی ، سیاسی،معاشی ، اور نفسیاتی عوامل میں پیوست ہیں۔دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا تسلسل آج ہمیں بند گلی میں دھکیل چکا ہے ، مذہبی ، معاشرتی ، لسانی و گروہی تعصبات و تفرقات میں تقسیم کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرداں ہیں۔ اس سب کی روک تھام کو ممکن بنانے کے لیے معاشرے میں تعلیم ، اخلاقیات ، اور انصاف کے نظام کو مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔تعلیمی اداروں اور گھروں میں بچوں کو برداشت ، امن پسندی اور دوسروں کی زندگی اور سکون کی اہمیت کی تعلیم و تربیت دینی چاہیے، عدالتی نظام کو مزید شفاف اور تیز رفتار ہونا چاہیے تاکہ مجرموں کو ان کے کیے کی سزاملے اور لوگوں کے دلوں میں قانون کا خوف پیدا ہو ۔ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں محبت ، رواداری ، عدل و انصاف کے اصولوں کو فروغ دیا جائے ۔

تبصرے بند ہیں.