تین برس قبل ایک سابق سفیر کی بیٹی نور مقدم کی اپنے دوست ظاہر جعفر کے ہاتھوں بہیمانہ انداز میں قتل کی لرزہ خیز وارادت نے اسلام آباد میں خوف کی سی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ ملک کی ایک بہت بڑی کاروباری فیملی کے چشم چراغ اس سفاک قاتل ظاہر جعفر نے جس بے دردی سے نور مقدم کا سر تن سے جدا کر کے اسے موت کی نیند سلایا اس کی تفصیلات اتنی بھیانک تھیں کہ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ کوئی انسان اس حد تک بھی درندگی پر اتر سکتا ہے۔ اسلام آباد کے پوش ایریا میں گھر میں قید ایک خاتون کا زخمی حالت میں فرار ہونے کی کوشش کے دوران بیرونی دروازے پر تعینات گارڈز سے مدد کی بھیک مانگنا اور جواب میں گارڈز کی بے حسی ناقابل یقین تھا۔ یہ گارڈز جو حفاظت کے نام پر وہاں ڈیوٹی دے رہے تھے ، قرآن کریم میں رب العالمین کے اس فرمان کو بھی بھول گئے کہ ” جس نے ایک شخص کی جان بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی”۔ محض نوکری کی خاطر ایک خاتون کے قتل کو ہوتا دیکھتے رہے۔یہ واقعہ ابھی ذہنوں سے نہ اترا تھا کہ ڈسکہ میں دو سالہ بچے کی ماں اور 8 ماہ کی حاملہ زارا کے قتل کا واقعہ سامنے اگیا جسے اس کی ساس اور نندوں نے انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا تھا۔ ان درندہ صفت عورتوں کو یہ جانتے ہوئے بھی رحم نہ آیا کہ اس عورت کے پیٹ میں 8 ماہ کا بچہ بھی تھا اور جو انھیں کے سگے بھائی کا خون تھا۔
ماں اور بہنیں اپنے ہی اکلوتے بیٹے اور بھائی کی اولاد کی قاتل بن گئیں۔ زارا کی ساس اس کی سگی خالہ بھی تھی۔ کیسے اپنا ہی خون سفید ہو جاتا ہے۔ ایک فوک وذڈم ہے کہ اپنا اگر مارے گا بھی تو چھاؤں میں پھینکے گا، لیکن یہاں تو پوری داستان ہی الٹ ہے۔ ان سفاک عورتوں نے نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے شاپروں میں ڈال کر مختلف جگہوں پر پھینک دیئے۔ ان ظالموں نے دو سال کے بچے سے اس کی ماں چھین لی اور پھر اسی گھر میں بڑے اطمینان سے رہ رہی تھیں۔ ایک پل بھی ان قاتل عورتوں کے ضمیر نے ان کو نہیں جھنجوڑا۔ کہا جاتا ہے کہ زارا سے رابطہ نہ ہونے پر باپ نے جب زارا کی ساس سے معلوم کیا تو اس نے کہا کہ کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔ ماں سے بہو اور بیٹے کا آپس میں محبت بھرا سلوک برداشت نہ ہو سکا اور اپنے ہاتھوں بیاہ کر گھر لائی بہو کا سر بیدردی سے کاٹ دیا۔ حسد کا جذبہ بے لگام ہوا تو ماں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کا یہ وحشیانہ قدم سگے اکلوتے بیٹے کا گھر بھی اجاڑ دے گا۔ وہ بیٹا دہرا زخم لئے ساری عمر جئے گا کہ اس کی بیوی اور پیٹ میں پلنے والے بچے کی قاتل کوئی غیر نہیں، اس کی سگی ماں اور بہنیں ہیں۔ اتنی چیر پھاڑ تو شاید حیوان بھی نہیں کرتا جو اس سنگدل عورت نے بیٹیوں کے ساتھ مل کر اپنی بہو کے ساتھ کیا۔ تاریخ میں پڑھا تھا کہ منگول انتہائی ظالم اور سنگدل تھے۔ جس علاقے کو فتح کرتے وہاں مفتوح قوم کے سروں کو کاٹ کر مینار کھڑے کر دیتے۔ یہ سب پڑھتے ہوئے یقین نہیں آتا تھا کہ بھلا انسان اتنی بربریت کیسے کر سکتا ہے۔ پھر خود کو تسلی دیتے کہ وہ تو غیر تہذیب یافتہ قومیں تھیں۔ یہی کچھ برصغیر کے مسلمان حکمرانوں نے بھی اپنے اپنے ادوار میں کیا۔تاہم خود کو قائل کرنے کیلئے اس کا کوئی نہ کوئی جواز گھڑ لیا جاتا۔ تاہم آج جب قومیں ارتقائی عمل سے گزر کر تہذیب و تمدن کے عروج پر ہونے کا دعویٰ رکھتی ہیں تو ایسے واقعات کا وقوع پذیر ہونا بہت سے سوالات کھڑے کر دیتا ہے۔ ہمارا معاشرہ جو فخر سے اسلامی معاشرہ ہونے کا دعویدار بھی ہے، عملی طور پر اس سے کوسوں دور ہے۔ ہمارے دین میں ماں کی گود کو پہلی درسگاہ قرار دیا گیا ہے۔بچہ ماں کی گود سے اپنی فکری تشکیل کی بنیاد رکھتا ہے۔ اخلاقی قدروں کا اولین درس اسی سے حاصل ہوتا ہے۔ یقینا ہم سے کہیں نہ کہیں کچھ غلط ہو رہا ہے جس کے نتائج مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ تربیت میں کمی و کوتاہی کا خمیازہ معاشرے کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جو کبھی ظاہر جعفر اور کبھی ڈسکہ واقعے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ بیٹا ہو یا بیٹی دونوں ہی کو یکساں فکری تربیت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ آگے چل کر ہر دو نے اپنے اپنے گھرانوں کی تشکیل کی ذمہ داری بھی نبھانی ہے۔
اقوام متحدہ کی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2017 میں قتل ہونے والی 87 ہزار خواتین میں سے نصف سے زائد کی موت ان کے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں ہوئی۔اگر اعدادوشمار پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں ہر روز اوسطاً 137 خواتین کو ان کے شریک حیات یا پھر خاندان والے قتل کر دیتے ہیں۔پاکستان میں 2017-18ء میں مقامی طور پر ہونے والے سروے میں بتایا گیا تھا کہ 15 سے 49 سال کی عمر کی 28 فیصد خواتین اپنے شریک حیات کے جسمانی تشدد کا نشانہ بنی ہیں۔ یہ الارمنگ اعدادو شمار ہیں۔ بحیثیت قوم ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ صحیح راستے کا انتخاب کرتے ہوئے جدوجہد کرنا ہے یا پھر ’’جیسے چل رہا ہے‘‘ کی بنیاد پر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے مکمل تباہی کا انتظار کرنا ہے۔
تبصرے بند ہیں.