چھوڑ دے ساری دْنیا کسی کے لیے

80

روزنامہ ڈان کی14، اکتوبر 2024ء کی اِشاعت میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ ٹیکسلا کے علاقے میں ایک شخص نے پچاس ہزار روپے سے زائد بجلی کا بل آنے پر خودکشی کرلی۔ وہ بے چارہ غریب آدمی تھا۔ اگست کے مہینے میں اْس کے گھر اڑتیس ہزار کا بل آیا جو وہ ادا نہ کرپایا۔ اگلا بل پچاس ہزار کا آیا اَور اْس میں وارننگ تھی کہ دو دنوں کے اندر بل جمع کروا دو ورنہ بجلی کاٹ دی جائے گی۔ اِس بات پر میاں بیوی میں جھگڑا ہوا۔ وہ چار بچوں کا باپ گھر کی چھت پر گیا اَور اْس نے چھری سے اَپنا گلا کاٹ لیا۔
ہمارے ملک میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے یہاں خود کشی بہت کم ہوا کرتی تھی۔ اگر کہیں اِس طرح کا کوئی واقعہ پیش آتا تو لوگوں کو بہت دْکھ اَور افسوس ہوتا تھا۔ دِیگر ممالک میں خودکشی کا رجحان بہت زیادہ تھا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ رجحان ہمارے ملک میں بھی آگیا۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھ لیتے ہیں کہ ساری دْنیا میں خودکشی کا رجحان کس طرح سے ہے۔2019ء تک دْنیا میں سب سے زیادہ خودکشیاں گرین لینڈ کے علاقے میں ہوتی تھیں۔ یہ ایک لاکھ افراد میں سے تیس افراد سے زائد تھے۔ یعنی ایک سال میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے تیس سے زائد افراد نے خودکشی کی۔ اْس کے بعد روس، جنوبی افریقہ، منگولیا، قازقستان اَور مشرقی یورپ کے ممالک ہیں۔ اْن کے بعد سویڈن، ناروے، بھارت، آسٹریلیا، وسطی افریقہ اَور USAاَور کینیڈا آتے تھے۔ پاکستان کے حالات سعودی عرب سے بھی بہتر تھے۔ بلکہ پاکستان میں ایران، افغانستان، عراق وغیرہ سے بھی کم خودکشیاں ہوتی تھیں۔ اِسی سال یعنی 2019ء میں پاکستان میں ہر ایک لاکھ میں سے تقریباً نو افراد نے خودکشی کی۔ چونکہ پاکستان کی آبادی بہت زیادہ ہے اِس لیے ملک کے اندر ہونے والی خودکشیاں کافی زیادہ تھیں۔ زیادہ خوفناک بات یہ ہے پاکستان میں 51سے53 سال کی عمر کے افراد کے اَندر خود کشی کا رجحان زیادہ ہے۔ یہ لوگ ہر روز خودکشی کرتے ہیں۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ خودکشی کی بہت بڑی وجہ غربت ہے جیسے کہ ڈان کی خبر سے نظر آتا ہے۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو ساری دْنیا میں خودکشی کا رجحان کچھ اِس طرح سے رہا۔ بے حد امیر ممالک میں یہ 18.3%تھا۔ اپر مڈل کلاس ممالک میں 34.3%، لوئر مڈل کلاس ممالک میں 35.4% اور غریب ممالک میں 12%۔ گویا غریب ممالک میں خودکشی کا رجحان سب سے کم رہا ہے۔ اِس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خودکشی کی وجوہات کا غربت سے بہت زیادہ گہرا تعلق نہیں ہے۔

اگرہم اپنے ملک میں آئیں تویہاں خودکشی کی وجوہات معاشی سے زیادہ معاشرتی ہیں۔ محبت میں ناکامی، گھریلو جھگڑے، محبت میں دھوکا، مختلف معاشرتی دباؤ ہمارے یہاں خودکشی کا سب سے زیادہ سبب بنتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ نوجوان اَور جوان افراد ہی زیادہ تر خودکشی کررہے ہیں اِس سے پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ مختلف معاشرتی دباؤ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ذرا سی ناکامی، مرضی کے خلاف نتیجے کا نکل آنا، دْوسروں کی دی ہوئی گالی یا کوئی اَور بری بات، جھوٹے الزامات ہی ہماری یہاں خودکشی کا سب سے بڑ اسبب ہیں۔ ہندی کے مشہور شاعر اِندی ور نے کہا تھا:

چھوڑ دے ساری دْنیا کسی کے لیے
یہ مناسب نہیں آدمی کے لیے
یہ شعر یہ بتاتا ہے کہ دْنیا میں کوئی غم، کوئی دْکھ، کوئی مسئلہ اَیسا نہیں جس کے لیے اِنسان اِس دْنیا کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلے۔ یہ چیز اِنسان کے مقام و مرتبے سے فروتر ہے۔ زندگی نہایت خوبصورت تحفہ ہے جو اِس دْنیا میں ایک بار ہی ملتا ہے۔ اِسے کسی حادثے سے دِل برداشتہ ہوکر واپس کردینا عقل مندی نہیں ہے۔ خودکشی عام طور پر تب کی جاتی ہے جب اِنسان یہ سمجھے کہ اَب حالات اِتنے خراب ہوگئے ہیں کہ اِن کے بہتر ہونے کا کوئی اِمکان نہیں ہے۔ اگر دیکھاجائے تو حضرت مریم سلام علیہاجن حالات سے گزریں اْن میں اِس بات کا بہت اِمکان تھا کہ آپ خودکشی کرجاتیں۔ بنی اِسرائیل کے ایک نہایت معزز خاندان کی چشم وچراغ، بیت المقدس کی خادمہ اچانک بغیر شادی کے حاملہ ہوگئیں۔ لیکن آپ نے حمل کا وقت اَور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد اَپنی قوم کے سامنے آنے کا وقت نہایت صبر اَور جرأت مندی سے گزارا۔ آج دیکھیں کہ آپ کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ دْنیا کی آبادی کی اکثریت آپ کا ذکر نہایت ادب و احترام سے کرتی ہے۔

اِسلام میں خودکشی حرام ہے۔ یہ اِس لیے حرام ہے کہ خودکشی کرنے والا دراصل اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوچکا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔ اَورکفر حرام ہے۔ نبی اکرم ؐ نے خودکشی کرنے والے کا بہت برا انجام بتایا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’جو شخص خود اپنا گلا گھونٹ کر جان دے ڈالتا ہے وہ جہنم میں بھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گااَور جو برچھے یا تیر سے اَپنے آپ کو مارتا ہے وہ دوزخ میں بھی اِسی طرح اپنے آپ کو مارتا رہے گا۔‘‘ (بخاری)۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’ایک شخص کو زخم لگا۔ اْس نے خود کو (زخم کی تکلیف کی وجہ سے)مارڈالا۔ اِس پر اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی۔ اِس کی سزا میں، میں اِس پر جنت حرام کرتا ہوں۔‘‘ (بخاری)۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا ’’جس نے اَپنے آپ کو لوہے (کے ہتھیار) سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اْس کے ہاتھ میں ہوگا اَور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں رہے گا۔ وہ اْسے اَپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا۔ جس نے زہر پی کر خودکشی کی، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں اْسے گھونٹ گھونٹ پیتا رہے گا اَور جس نے اَپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خودکشی کی، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں پہاڑ سے گرتا رہے گا۔‘‘ (مسلم)۔ یہ احادیث یہ بتاتی ہیں خودکشی کرنے سے مسئلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ اصل مسئلہ اْس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں، جیسے کہ ڈان کی خبر والے جوان نے سمجھا، کہ خودکشی کرلیں گے تو دْکھ اَور مسائل سے چھٹکارا مل جائے گا۔ محبت میں ناکام ہونے والا یا دھوکا کھانے والا یہ سمجھتا ہے کہ محبوب نے اْسے جو دْکھ دیا ہے اْس سے چھٹکارا پانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ دْنیا ہی چھوڑ دی جائے۔ اصل میں وہ یہ سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد وہ فنا ہوجائے گا۔ اْس کے ساتھ اْس کے دْکھ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں گے۔ یہ سوچ بھی کفر ہے۔ اصل میں ہوگا یہ کہ خودکشی کرتے ہی وہ جہنم کا ٹکٹ کٹوا لے گا۔ دْنیا کی چند سالہ زندگی کو دْکھ میں گزارنے کا اْسے حوصلہ نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ کی زندگی اذیت میں کیسے گزارے گا؟ ہمارے یہاں دِین سے دْوری کایہ نتیجہ نکلا ہے کہ عام اِنسانوں میں آخرت، جنت اَور دوزخ کے تصورات دھندلا گئے ہیں۔ اب وہ صرف منہ زبانی مسلمان ہیں۔ اِس طرح کے اِیمان کا ایک نتیجہ ضرور نکلے گا۔ اْس کے بارے میں ہمیں آج سوچنا ہے۔ ہمیں ایک کشتی کا سوار ہونا ہے۔ وہ کشتی ایمان کی ہو یا کفر کی، اِس کا فیصلہ ہم نے آج کرنا ہے۔ اگر ہم یونہی ڈولتے رہے تو بھیانک انجام منہ کھولے اِنتظار کررہا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں.