اپوزیشن اور حکومت آمنے سامنے خدا خیر کرے

53

حکومت پاکستان پاکستانی عوام کے لیے تمام تر وہ اقدامات کر رہی ہے جس سے 24 نومبر کو تحریک انصاف کی کال پر جو حکومت کو خدشات ہیں ان کا تذکرہ کیا گیا ہے اس لیے حکومت نے وہ ذرائع جس سے جلسہ یا جلوس کے لیے آنے والے لوگوں کو منتشر کیا جائے یا ان کو پکڑنے میں آسانی ہو سارے حربے استعمال کر رہی ہے اسلام آباد میں پولیس اور رینجر مارچ کر رہی ہے اور وزیر داخلہ محسن نقوی کی قیادت میں اسلام آباد کی سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے نعرہ تکبیر نعرہ رسالت نعرہ حیدری کے نعرے لگا رہی ہے ان کی قیادت وزیر داخلہ محسن نقوی کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی اور محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کی حکومت عوام کی خدمت کے لیے پولیس کو 24 نومبر کی بجائے 22 نومبر کو ہی میدان میں اتار چکی ہے اور محسن نقوی وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے حکومت عدلیہ کے حکم پرعوام کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں آنے دیں گے اور بیلا روس کے صدر کی آمد پر ہم ان کا پرجوش استقبال کریں گے اور پاکستان کے کسی شہری کو اسلام آباد میں گھس کر یا حملہ کر کے ڈی چوک پہنچنے کی اجازت نہیں دیں گے ان کو روکنے کے لیے اسلام آباد کے گرد و نواح موٹرویز جی ٹی روڈ اور تمام وہ ذرائع جن کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد دھرنے کے لیے آ سکتے ہیں بند کر دیئے گئے ہیں اس موقع پر یہ بھی انتظام کیا گیا ہے کہ اسلام آباد اور اسلام آباد کی گرد و نواح کسی ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس میں کوئی مسافر نہیں ٹھہر سکتا جو ٹھہرے ہوئے تھے ان کو نکال باہر کیا گیا ہے جن میں غیر ملکی وہ افراد ہیں جو کہ اسلام آباد میں اپنے اپنے ممالک سے کام کاج کے لیے آئے ہوئے تھے لیکن اس موقع پر پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی صاحب نے کہا ہے کہ ہم آنے والے مہمان بیلا روس کے پریذیڈنٹ کا پرجوشی استقبال کریں گے جبکہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو راہ راست پر لانے کے لیے ارب روپے فنڈ سے کنٹینروں سے راستے بند کریں گے انسو گیس شیل ربڑ کی گولیوں اور دیگر ذرائع استعمال کریں گے کہ کسی شہری کو بھی اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی جنرل سیکرٹری سلمان ا کرم راجہ نے کہا ہے کہ ہمیں دنیا کی کوئی طاقت پرامن احتجاج سے نہیں روک سکتی ہم 24 نومبر کو اپنے قائد بانی پی ٹی آئی کی کال پر ڈی چوک آئیں گے اور اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرے جلسے اور جلوس کریں گے اور ممکن ہوا تو دھرنا بھی دیں گے جبکہ حکمرانوں نے پہلے تو اسلام آباد میں دو ماہ سے دفعہ 144 لگا رکھی ہے اور اب پنجاب میں تین دن کے لیے دفعہ 144کا نفاذ کر دیا گیا ہے جب کہ حکمرانوں کا یہ کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی کمر ٹوٹ چکی ہے لیڈرشپ کا فقدان ہے اس پارٹی میں فیصل واوڈا کے مطابق سیکڑوں گروپ بن چکے ہیں اور یہ لوگ اسلام آباد میں پانچ ہزار تو کیا 500 بندہ اکٹھا نہیں کر سکتے تو میں اس موقع پر حکمرانوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ جب پی ٹی آئی میں کوئی دم خم نہیں ہے تو انہیں موقع دیں کہ وہ اپنی طاقت کا اظہار کریں جب لوگ نہیں آئیں گے تو ان کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی لیکن خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، عطا اللہ تارڑ، احسن اقبال، عظمیٰ بخاری، مریم اورنگزیب اور دیگر حکومتی عہدہ دار صبح ہونے سے لے کے شام تک پی ٹی آئی کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپ اسلام آباد احتجاج کے لیے نہ آئیں کیونکہ بیلا روس کے صدر انہی دنوں میں پاکستان تشریف لا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ پاکستان تحریک انصاف کو طاقتور جماعت بھی نہیں سمجھتے یہ اب پتہ چلے گا کہ 24 نومبر کو اسلام آباد میں تحریک انصاف اپنی قوت کا مظاہرہ کرتی ہے یا پھر حکمران ان کو اسلام آباد نہیں آنے دیتے حکمرانوں نے تحریک انصاف کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ مارکٹائی اور دوسرے ذریعہ کے سبب پاکستان کے تمام شہروں میں ناکہ بندی کر رکھی ہے کہ کوئی کارکن اسلام آباد نہ نکل سکے تمام گاڑیوں پر حکومت نے قبضہ کیا ہے تمام سڑکیں بند کر دی گئی ہیں پٹرول پمپ بند کر دیے گئے ہیں اور وہ تمام ذرائع جن کے ذریعے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد پہنچنا چاہتے ہیں وہ بند کر کے حکومت نے اپنا حق حکمرانی ادا کر دیا ہے اس طرح تین دن پاکستان میں نیٹ کی سہولت بھی میسر نہیں ہوگی اور کسی بھی شخص کو سفری سہولیات بھی نہیں ملیں گی کیونکہ تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں حتی کہ لاہور راولپنڈی ملتان اور دیگر شہروں میں چلائی جانے والی اورنج ٹرین اور سرکاری ٹرانسپورٹ بھی بند کر دی ہے اللہ بہتر کرے پاکستان جو کہ قائداعظمؒ کا پاکستان ہے وہ قائم و دائم رہے شریفوں اور زرداریوں کا پاکستان جس میں 24 نومبر خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے اللہ تعالیٰ حق اور سچ کی فتح کرے اور عوام کی بھلائی کے لیے کوئی طریقہ کار وضع ہو اورطاقت ور حلقے اس میں اپنا کردار ادا کریں تو ممکن ہے کہ یہ تصادم تھم جائے اور پاکستان میں امن اور سکون آ جائے۔

تبصرے بند ہیں.