سپاہ کا جذبہ آسمان سے باتیں ہی کیوں نہ کر رہا ہو قیادت ناتجربہ کار کے ہاتھ میں ہو تو کامیابی کس حد تک اور کس درجے کی ہو سکتی ہے۔ یہ عام فہم سی بات ہے، چوبیس نومبر کے احتجاج کی کال کے حوالے سے اہم اجلاس منعقدہ پشاور میں اہداف دیئے گئے کہ ہر ممبر قومی، صوبائی اسمبلی ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں کو بسوں میں بھر کر لائے گا، سب کی ویڈیو بنائے گا، اسے اپ لوڈ کرے گا، کارکنوں کی ٹرانسپورٹ، زاد راہ موسم سے محفوظ رہنے کے انتظامات، مقام احتجاج پر قیام و طعام کا بندوبست بھی کرے گا، یہ سب کچھ کسی پکنک پر جانا ہو تو درست ہے، احتجاج اور وہ بھی حکومت کے خلاف جسے عدلیہ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل ہو اس انداز میں موثر نہیں ہو سکتا، سیاسی موسم کسی تحریک کیلئے ناسازگار ہو تو کارکنوں کو اس انداز میں بسوں میں بھر کر نہیں لایا جاتا۔ جس طرح ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ یہ تو زمانہ امن میں جلسہ عام میں شرکت کرنی ہو تو جب اختیار کیا جاتا ہے۔ میڈیا میں بھی بحث جاری ہے کہ پی ٹی آئی کتنی بسیں اور کتنے کارکن میدان میں اتار سکتی ہے۔ اس بحث کا کوئی سرپیر نہیں ہے۔ بعض حکومتی اقدامات انجانے میں کامیاب احتجاج کی معاونت کرتے نظر آتے ہیں۔ پرائم منسٹرز یونیورسٹی سپورٹس اولمپیڈ کے نام پر بیس نومبر سے تئیس نومبر تک اسلام آباد میں ایک عظیم اجتماع ہے جس میں کھیلوں کے مقابلے جاری ہیں۔ کھلاڑیوں اور منتظمین کے ساتھ ساتھ لاتعداد افراد اسلام آباد پہنچے ہیں جو کھلاڑی ہیں نہ منتظمین۔ اسلام آباد پولیس چاہے تو ان کے منہ سونگھنے شروع کر دے، چاہے تو ویڈیوز محفوظ کر لے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ 23نومبر کی شام ختم ہونے والے مقابلوں میں شریک ہونے والے چند گھنٹوں میں اسلام آباد خالی کر دیں گے، یہ کیسے یقین کر لیا گیا۔ کھلاڑی کم ہوں یا زیادہ پورے پاکستان کی یونیورسٹیوں سے آئے ہیں۔ انہوں نے سیر و تفریح بھی کرنی ہے۔ حکومت کی شان بیان کرنے میں ملکہ حاصل کرنے والے اس کے ایک بڑے اتحاد اینکر لندن سے اپنے خطاب میں طلباء کو احتجاج میں شریک ہونے کی دعوت دے چکے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے حکومت کو نکما اور ناکام قرار دیا، ان کے رویئے میں تبدیلی فقط آٹھ روز میں آئی ہے جو قابل فہم ہے۔ احتجاج اور دھرنے کیلئے نکلو نکلو کی صدائیں دینے والے 2014ء کو نگاہوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ اب 2024ء ہے۔ دس برس میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف انتخابی دھاندلی سے شروع ہونے والی تحریک اور احتجاج تحریک نظام مصطفیٰ میں تبدیل ہوا۔ بظاہر تو اس کے پیچھے سیاسی جماعتیں تھیں لیکن ان کے پیچھے کون کون اور کیا کیا تھا جس نے حکومت کو الٹا کر رکھ دیا۔ 9ستارے فاتح نہیں تھے، اسی طرح عدلیہ بحالی تحریک جو دراصل پرویز مشرف ہٹائو تحریک تھی اگر اس میں اشفاق پرویز کیانی نہ ہوتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔ وہ اہم ترین کردار تھے اور امریکہ کے ساتھ ساتھ سازباز کے نتیجے میں ایک طرف تو جنرل مشرف کے ساتھ بیٹھے نظر آتے تھے لیکن دوسری طرف ان کی جڑیں کاٹنے کا کام کر رہے تھے۔ امریکہ جنرل پرویز مشرف سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ اس مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والوں کو بعد ازاں حسن کارکردگی کے انعام میں ایکسٹینشن بھی دی گئی۔ اس تحریک میں سرمایہ کہاں سے آیا اور کس قدر آیا، یہ کوئی راز نہیں، پٹرول، گاڑیاں، کھانا پینا اور نقد فیسیں ادا کی گئیں بلکہ ایڈوانس دی گئیں۔ 2014ء کے احتجاج اور دھرنے کا ایک روزہ خرچ پانچ کروڑ روپے تھا۔ کل اخراجات کا تخمینہ لگا لیجئے۔ تحریکیں صرف وسائل سے نہیں چلتیں، کہیں نہ کہیں غیبی ہاتھ، غیبی طاقت کارفرما ہوتی ہے۔ وہ ہر تحریک کی کامیابی کا کریڈٹ اپنے چیلوں چانٹوں کو دیتی ہے جو بعد ازاں منصب حاصل کرنے میں شریک اقتدار ہوتے ہیں۔
تصویر کے دوسرے رخ پر نظر ڈالیں، یہ نہیں ہے کہ نظام کے تمام کل پرزے فاتح ٹھہریں گے اور کچھ نہیں ہوگا۔ حکومتی زعماء اور بعض وزراء اپنے ٹی وی انٹرویو میں اعتراف شکست کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اگر الیکشن آڈٹ ہو جائے تو ہم سب گھر چلے جائیں گے۔ ہمارے پلے کچھ نہیں۔ رائیونڈ کے داماد کہتے ہیں ہمیں 47 کی سلامی ملی، ہم الیکشن نہیں جیتے۔ بلوچستان صوبائی اسمبلی کے دو وزراء کے سر سے 47سے چھتری عدالت نے کھینچ لی ہے اور حلقوں میں دوبارہ انتخاب کا حکم دے دیا ہے۔ الیکشن ٹریبونل دو ماہ میں عذر داریاں نمٹانے کے پابند ہیں۔ 9ماہ میں صرف دس فیصد کام ہوا ہے باقی نوے فیصد کو کیوں لٹکایا جا رہا ہے۔ یہ کس بات کی نشان دہی کرتا ہے۔ جن کے گھر ڈاکہ پڑا ہے کیا وہ خاموش رہیں، انہیں بات کرنے کا حق بھی نہیں دینا چاہئے۔ یاد رہے ہر جنگ کے بعد مذاکرات ہوتے ہیں۔
فاسٹ بائولر کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ بیٹنگ نہیں کر رہا کہ کسی بھی لمحے آئوٹ ہو جائیگا، بارش ہونے پر پچ گیلی ہو جائے یا گیند اس کے پیڈ پر لگ جائے اور ایمپائر اسے آئوٹ نہ ہونے کے باوود آئوٹ قرار دے ڈالے، وہ بائولنگ کر رہا ہے اور تنہا ہی کر رہا ہے، مخالفین کو فیلڈنگ کرا رہا ہے، بھگا رہا ہے، دوڑا رہا ہے، وہ بائولنگ کرتا رہے گا، ون ڈے ہو یا پانچ دن ایک سال ہو یا پانچ سال بڑھ کر دس سال بھی ہو جائیں وہ بائولنگ کرتا رہے گا۔ وہ چار منجھے ہوئے بیٹسمین کو کبھی نہ کبھی آئوٹ کر لے گا، پھر کیا ہوگا، مذاکرات ہوں گے، بہتر ہے یہ مذاکرات آج ہو جائیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ شرائط کیا ہیں، جھوٹے مقدمات واپس لئے جائیں، قصور واروں کو بے شک سزا دی جائے، چوری شدہ سیٹیں واپس کی جائیں، مالی نقصان کا ازالہ کیا جائے اور رشوت کے طور پر کی گئی چھبیسویں آئینی ترمیم واپس لی جائے جسے منظور کرانے میں کیا کیا حربے استعمال نہیں ہوئے۔ ایک آدھ شرط کو چھوڑ کر سب مانی جا سکتی ہیں۔ شرط، نیت اور اخلاص ہے۔ تمام شرائط بھی مان لی جائیں تو وہ سوا سو سیٹوں سے حکومت کو بدل نہیں سکتا پھر ڈر اور خوف کیا ہے۔ انتقام نہ لینے کا اسٹامپ لکھوا لیں، پچاس روپے کا اسٹامپ لکھوا لیں بہت کارگر ہوگا، معیشت اور ملک کو بچائیں گزشتہ دو برس میں سٹاک مارکیٹ چھ مرتبہ کریش ہوئی ہے۔ سرمایہ داروں کے کئی ہزار ارب روپے ڈوبے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ دو روز قبل ہوا ہے۔
تبصرے بند ہیں.