’’کپتی‘‘… کتاب اور ردی

76

بڑھاپا ہر انسان کا بونس ہے، اس کی مرضی اور خدا کا لکھا جہاںتک لے جائے، میں بھی اب بڑھاپے میں بونس ہی کی زندگی انجوائے کر رہا ہوں۔ اگر میرے بھی دو چار بیٹے ہوتے تو اپنے گائوں گندرہ (گجرات) چلا جاتا اور حقہ پانی کے ساتھ آخری زندگی بسر کرتا… مگر ایسا نہ ہوسکا، یہ جو بات بتانے جا رہا ہوں بہت عرصہ پہلے کی ہے۔ صحافت میں میرے باپ اور استاد محترم سلیم بخاری نے کتاب کے بارے مجھے کہا تھا کہ یہ کتاب ہی ہمارا سب سے بڑا ورثہ اور بہترین دوست ہے۔ اب سلیم بخاری صاحب کو صرف کتاب پڑھنے کا شوق ہی نہیں گھر یا دفتر میں اس کو رکھنے کا ذوق بھی بہت ہے۔ انگریزی صحافت کے سب سے بڑے قلمکار جب اردو زبان میں میوزک اور فن کی دنیا پر اپنے قلم کو کاغذ پر منتقل کرتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ جس بندے نے اپنی تمام عمر انگریزی کی نظر کر دی وہ اردو میں بہت بڑا ملکہ رکھتا ہو۔ بات ہو رہی تھی کتاب کی۔ مجھے بھی کتاب خریدنے سے کتاب پڑھنے اور پڑھنے سے کتاب کو جمع تک کا ایک جنوں سا ہے اور یہ جنون اس حد تک بڑھ گیا کہ گھر میں کتابوں کا ایک ڈھیر سا لگا ہوا ہے۔ خاص کر ادبی، شاعری، میوزک، شخصیات، کردار یا کسی بڑے سائنس دان سے لے کر بڑے سیاست دان تک کے بارے میں اکثر ریفرنس درکار ہوتا ہے تو میری صحافتی زندگی میں کتاب سے جڑا رشتہ کبھی کبھی مجھے اس بات کا بھی احساس دلاتا ہے کہ شاید کتاب ہی میرا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ میرے اس اثاثے کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ صرف دکھ یہ ہے کہ اب اس کے قدردان بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب کتاب بہت چھپتی اور بہت پڑھی جاتی مگر اب نہ وہ کتاب کو پڑھنے والے نہ خریدنے والے نہ شائع کرنے والے زیادہ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کتاب نے چھپنا بند کر دیا ہے۔
بہرحال آج میرے کالم کے عنوان سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا میں نے اپنے کالم کے آغاز میں لکھا کہ اب میں بونس کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ یوں میں جب آدمی اکترہویں میں چلا جاتا ہے تو پھر بونس ہی ہوتا ہے۔ اس عمر میں میرے تمام دکھ الگ سوائے ایک دکھ کہ میرے مرنے کے بعد میری کتابوں کا کیا بنے گا؟ میری کپتی نے تو تمام عمر کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگایا سوائے سکول کے زمانے کی کتابوں کے اس کو کیا پتہ ناچ کیا ہوتا ہے یعنی ناچ نہ جانے آنگن ٹیرھا۔ یوں بھی گھر میں پڑی لاتعداد کتابیں اس کے لیے کسی ردی سے کم نہیں ہیں۔ وہ آئے روز لڑائی میں ایک بات کہتی ہے کہ یہ کوڑا اٹھائو۔ میری الماریاں خالی کرو… اور مجھے یقین کامل ہے کہ وہ ضدی کپتی میرے مرنے کے بعد پہلا کام کتابوں کو ردی والے کو بلا کر اس کے ترازو میں رکھ کر تین ہزار والی قیمت کی کتاب کو دس روپے کلو کے حساب سے بیچ ڈالے گی… ہائے رے میرا یہ دکھ مجھے صبح سویرے مارتا ہے۔ اب آپ میری کپتی کی اس واہیات قسم کی سوچ جب میری کتابوں پر حملہ آور ہوگی تو یقین جانیں قبر میں میری روح اس دن تڑپ تڑپ کر مجھے تڑپائے گی اور یوں تو زندگی میں اس کی طرف سے دیئے گئے بے حساب دکھ بھول جائوں گا مگر کتابوں کو ردی کے حوالے کرنے والے دکھ کا اس سے روزقیامت ضرور حساب لوں گا اور اس کو معاف نہیں کروں گا۔ باقی میرے رب دیاں میرا رب ای جانے…
گزشتہ کئی ماہ سے میری اس سلسلے میں سی سی او نمبر ایک پاہ عثمان اور سی سی او نمبر ٹو ہمایوں سلیم سے اس اہم اور سنگین مسئلے پر کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ ہمایوں سلیم کا یہ مؤقف ہے کہ کپتی یقیناً میری کتابوں کو ردی کی نظر کر دے گی لہٰذا تم انہیں کسی بڑی لائبریری کو ڈونیٹ کر دو۔ پاہ جی کا مؤقف ہے کہ کپتی اور اپنی زندگی میں ان کتابوں کو تقسیم کر دو۔ تاکہ تمہارا یہ دکھ بھی تیری زندگی میں ہی ختم ہو جائے۔ اب اس کتاب دشمن کپتی کو کون سمجھائے کہ علم کو کبھی ردی کے طور پر فروخت نہیں کرتے، یہ بھی گھر میں پڑا ایک تعلیمی زیور ہے۔ جس طرح تم اپنے زیور کی حفاظت کرتی ہو ان کی بھی اسی طرح حفاظت کرو۔ مگر کیا مجال کہ وہ اس طرف توجہ دے اور دے گی بھی کیوں آج مرے کل دوسرا دن اور وہ انشاء اللہ تیسرے دن ہی میری کتابوں کو گھر سے اس طرح انہیں نکالے گی جس طرح ایک سوکن دوسری سوکن کو برداشت نہیں کرتی بلکہ مجھے سوکن سے یاد آیا کہ گھر میں پڑی کتابیں تو اس کی سب سے بڑی سوکن ہیں، وہ کئی دہائیوں سے بہت مجبوری میں اس سوکن کو برداشت کئے ہوئے ہے۔ اس جہاں عالم میں میرے جیسے کتاب کے ہزاروں قدردان اور ان کے گھروں میں بڑی لائبریریاں ہیں۔ میں نے صحافت کے دوران میں جن بڑے صحافتی یا ادبی لوگوں کے گھروں میں ان کی بنی لائبریوں کو دیکھا۔ جن میں سہیل وڑائچ کے وزن سے بھی زیادہ بہت بڑی لائبریری موجود ہے۔ کتاب کا مطالعہ ان کا عشق اور جنون کی حد تک ہے اور ہر موضوع پر کتاب رکھی بڑے سلیقے سے اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ میں ہوں ناں۔ ان سے پہلے کتاب لائبریری میں دیکھتا ہوں تو شعیب بن عزیز شاید کتابوں کے حوالے سے سب سے آگے ہوں گے۔ انہوں نے کتاب کو فریم کی طرح سجایا ہے اور آگے کی طرف دیکھوں تو پھر عطاء الحق قاسمی اور خاور نعیم ہاشمی کے پاس کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ بتاتا چلوں کہ میری خاور صاحب سے دوستی کو چالیس سال ہو گئے۔ اس دوران وہ دو تین دفعہ گھر بھی آئے اور جب بھی آئے وہ ہر دفعہ پندرہ بیس کتابیں گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر لے جاتے۔ اگلے دور میں اتنی کتابیں پھر لے آتا۔ ان کا میرے گھر آنا بہت مہنگا پڑ رہا تھا لہٰذا ایک دن انہوں نے فون کیا کہ اسد میں تیرے گھر آ رہا ہوں اور راستے میں ہوں تو میں نے فوراً کہا شاہ جی! میں نے گھر بدل لیا ہے اور یہ سوچ کر کہ وہ آ ہی نہ جائیں۔ میں نے اپنے ہمسائے کو کہہ کر گھر کے باہر تالا لگوا دیا… کہ جس برے طریقہ سے شاہ جی میری کتابوں پر حملہ آور ہوتے ہیں… اسی رفتار سے میرے دل کی دھڑکنیں بھی رفتار پکڑ لیتی ہیں۔ گو شاہ جی کو گھر نہ بلانے کا دکھ تو ہے مگر کتاب کے جانے کے دکھ نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا ورنہ شاہ جی تو میرا دل ہیں۔

اور آخری بات…
اپنی کپتی سے آخری وصیت ضرور کروں گا کہ خدا کے لیے کتاب کو کسی ردی والے کے حوالے کرنے کی بجائے میرے غمگساروں سے مشورہ کرکے کسی علمی ادارے کو ڈونیٹ کر دینا۔

تبصرے بند ہیں.